Get Alerts

بزدار، اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی، سیدھا حملہ عمران خان پر ہوگا: نجم سیٹھی

بزدار، اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی، سیدھا حملہ عمران خان پر ہوگا: نجم سیٹھی
سینیئر صحافی نجم سیٹھی نے کہا ہے کہ اپوزیشن میں ایک سوچ یہ بھی ہے کہ پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے لیکن ایسا ہوگا نہیں، اور سیدھا عمران خان کی طرف حملہ ہوگا۔

24 نیوز پر پروگرام نجم سیٹھی شو میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی نے کہا کہ اپوزیشن میں کچھ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ سپیکر ہوتے ہوئے اسد قیصر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں رکاوٹیں ڈال سکتے ہیں۔ وہ اکثر ایسی رولنگز دیتے ہیں جو آئین و قانون سے متصادم ہوتی ہیں لیکن چونکہ ان کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، اپوزیشن زچ ہو جاتی ہے۔ اس لئے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے ایک تحریکِ عدم اعتماد ان کے خلاف لائی جائے اور انہیں راستے سے ہٹانے کے بعد آگے چلا جائے۔ تاہم، نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔

پروگرام میں نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ اسد قیصر کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں آئے گی، سیدھی عمران خان کے خلاف ہی تحریکِ عدم اعتماد آئے گی۔ پہلے یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سینیٹ چیئرمین کو ہٹانے کی کوشش کر دیکھیں جس سے پتہ چلے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کے ساتھ ہے یا نہیں۔ لیکن ایسا بھی کچھ نہیں ہونے والا۔ پیپلز پارٹی تو شروع سے کہتی تھی کہ پنجاب سے شروعات ہونی چاہیے اور عثمان بزدار کو نکالنا عمران خان کو نکالنے سے آسان ہوگا۔ مگر اب وہ بھی نہیں ہونے والا۔

نجم سیٹھی کے مطابق فیصلے ہو چکے ہیں کہ ان سب کو چھوڑ کر سیدھا عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی جائے۔ انہیں ہٹا دیا تو یہ سب ایک ایک کر کے خود ہی گر جائیں گے۔

تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کس کی حکومت بنے گی؟

دو سوالات اس حوالے سے جو نجم سیٹھی کے سامنے رکھے گئے وہ انتہائی اہم ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ اگر یہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو کیا ہوگا؟ اور دوسرا یہ کہ حکومت گر گئی تو ایسی صورت میں اگلی حکومت کون بنائے گا۔ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ یہ تحریک ناکام ہو جائے۔ لیکن کامیابی کی صورت میں کیا ہوگا، اس حوالے سے کچھ باتیں طے کی جا چکی ہیں۔ اور کچھ کو کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ابھی بہت سی چیزیں ہیں جو سامنے لائی جا سکتی ہیں لیکن فی الحال میں دیکھوں گا کہ یہ تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر کامیاب ہو گئی تو اس موقع پر بتاؤں گا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد کب آئے گی؟

نجم سیٹھی ماضی میں کہتے رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ اور پی ڈی ایم کے لانگ مارچ وغیرہ نہیں ہونے کیونکہ اس سے پہلے ہی کچھ ہو جائے گا۔ وہ اسی مؤقف پر قائم ہیں۔ ایک سوال پر نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ 27 مارچ کو ہونے جا رہا ہے تو اس سے پہلے ہی کام تمام ہو جائے گا، چاہے تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو یا ناکام۔

مطلب یہ کہ جو کچھ ہونا ہے وہ 27 فروری سے قبل ہوگا۔ 7 فروری کو یہ پروگرام آن ایئر ہوا۔ یعنی اگلے دو سے تین ہفتے میں آر یا پار ہو جائے گا۔

عدم اعتماد ناکام ہوئی تو؟

اگر تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو نجم سیٹھی کے مطابق اس کے تین نتائج نکلیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ امپائر اب بھی عمران خان کے ساتھ ہے اور اپوزیشن کو جو تاثر دیا گیا تھا کہ امپائر اب غیر جانبدار ہو چکا ہے اس کی نفی ہو جائے گی۔

سارا الزام پیپلز پارٹی پر؟

دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سارا الزام پیپلز پارٹی کی طرف جائے گا۔ کیونکہ مسلم لیگ ن پہلے ہی مسلسل یہ بیانیہ اپنائے ہوئے تھی کہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوگی۔ لیکن پیپلز پارٹی کو لگتا تھا کہ اس کی کامیابی ممکن ہے۔ اب بھی اس کے لئے کھیل زرداری صاحب نے ہی تیار کیا ہے۔ اس بار اگر اپوزیشن کے ساتھ ہاتھ ہوا تو یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ ہاتھ اسٹیبلشمنٹ نے کیا ہے اور پیپلز پارٹی کے ذریعے کیا ہے۔ اگر یہ تحریک ناکام ہوئی تو ابھی تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جو لڑائی کے بعد معاملات بہتر ہو گئے ہیں، وہ دوبارہ نہیں ہوں گے۔ یہ پھر ایک دوسرے کی مخالف سمت میں ہی چلیں گی۔

'شہباز شریف کا کھیل ختم'

تیسرا نتیجہ اس کا یہ نکلے گا کہ شہباز شریف صاحب مسلم لیگ ن میں بالکل سائیڈ لائن ہو جائیں گے۔ ابھی تو نواز شریف نے ان کو فری ہینڈ دیا ہوا ہے کہ آپ جو کرنا چاہیں، وہ کریں۔ ایسا نہیں ہے کہ نواز شریف نے ان کو حمایت نہیں دی۔ نواز شریف کی حمایت ان کو بالکل میسر ہے، یہی وجہ تھی کہ مریم وہاں ساتھ کھڑی تھیں، لیکن جو بھی بات ہوئی ہے، مسلم لیگ ن کی جانب سے اسے شہباز شریف لیڈ کر رہے تھے۔ لیکن اب اگر یہ ناکام ہوتی ہے تو یہ تیسری بار ہاتھ ہوگا۔ پہلے 2019 میں جب مولانا فضل الرحمان صاحب نے لانگ مارچ کیا تھا۔ اس کے بعد شہباز شریف جب لندن گئے تھے اور پھر کورونا شروع ہوتے ہی اچانک واپس آئے تھے۔ نجم سیٹھی کے مطابق تب بھی ان سے کچھ وعدے وعید کیے گئے تھے۔ اب اگر وہ ناکام ہوئے تو یہ تیسری مرتبہ دھوکہ ہوگا اور اس کے بعد شہباز شریف ن لیگ میں ایک سائیڈ پر بیٹھ جائیں گے جب کہ چارج مکمل طور پر نواز شریف اور مریم نواز سنبھال لیں گے۔