پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کی آج سپریم کورٹ میں سماعت کی جائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ 8 جنوری کو ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کرے گا۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل ہیں۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ میں تحریری جواب جمع کر ادیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔ تحریری جواب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔ تحریری جواب میں مختلف کتابوں کے حوالہ جات سمیت سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی کے ساتھ مذکورہ انٹرویو کی انگریزی اور اردو میں ٹرانسکرپٹ بھی جمع کروائی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی بھی جمع کروا دی گئی۔
سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ ریفرنس اپریل 2011 میں دائر کیا تھا۔
ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں چھ سماعتیں ہو چکی ہیں جن میں سے پہلی سماعت دو جنوری 2012 کو جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔
صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں۔
صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔
لگ بھگ ساڑھے بارہ برس قبل سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ریفرنس میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک بیان کو بنیاد بنایا تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ ایک ٹی وی انٹرویو میں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ کا اعتراف کیا تھا۔
صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں کرنے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کی گئی جو آئین کی خلاف ورزی تھی۔
صدارتی ریفرنس میں سرکاری وکیل کے طور اُس وقت بابر اعوان ایڈووکیٹ پیش ہوئے تھے جن کا مؤقف تھا کہ قتل میں اعانت پر کسی بھی شخص کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔
بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت میں ابتدائی دلائل میں کہا تھا کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا حوالہ کسی بھی عدالتی فیصلے میں نہیں دیا جاتا۔
اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کا رویہ متعصبانہ تھا۔