ذوالفقار علی بھٹو کیس: صدارتی ریفرنس کی سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد کا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی۔ عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی۔ بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہا کہ میں نے دباؤمیں فیصلہ دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کیس: صدارتی ریفرنس کی سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی

سپریم کورٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ 8 جنوری کو ذوالفقار بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی،جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل ہیں۔ 

کیس کی سماعت کے دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔ پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں۔ آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلےکا جائزہ لےکر رائے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلاکر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا۔ آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟

وکیل مخدوم علی خان نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد کا نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی۔ عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی۔ بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہا کہ میں نے دباؤمیں فیصلہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا اس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ کیا تو کیا اپنے ہر فیصلے پر یہی کرنا ہو گا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایک قانونی سوال جو میں سمجھا ہوں کہ ذوالفقار بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا۔ اس کیس میں صرف ایک جج کا انٹرویو آیا دیگر ججز بھی خاموش رہے۔

چیف جسٹس نے کہا ہر فوجداری کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے۔ آپ نے کہا یہ منفرد کیس ہے۔ باقی کیسز سے الگ عدالت اسے دیکھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگادی گئی۔ آپ محنت کریں اور بتائیں کے یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔

مخدوم علی خان نے کہا فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو انہیں درست ہونا چاہیے۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا۔ اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟

کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جیو نیوز کے پروگرام جوابدہ کا کلپ بھی چلایا جس میں پروگرام کے میزبان ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کے 7 رکنی بینچ میں شامل ایک جج سے سوالات پوچھ رہے ہیں۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور اُس وقت کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قصوروار ہے؟

بعد ازاں چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوانا شروع کردیا، حکم نامے میں کہا گیا کہ رضا ربانی نے بتایا کہ صنم بھٹو اور آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو زرداری کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ زاہد ابراہیم فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونیئر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں الیکشن کیسز سمیت دیگر مقدمات زیر التوا ہیں مناسب ہے اس کیس کو عام انتخابات کے بعد سنیں۔

سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروایا تھا۔  تحریری جواب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔ تحریری جواب میں مختلف کتابوں کے حوالہ جات سمیت سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی کے ساتھ مذکورہ انٹرویو کی انگریزی اور اردو میں ٹرانسکرپٹ بھی جمع کروائی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی بھی جمع کروا دی گئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے یہ ریفرنس اپریل 2011 میں دائر کیا تھا۔

ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں چھ سماعتیں ہو چکی ہیں جن میں سے پہلی سماعت دو جنوری 2012 کو جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔

صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں۔

صدارتی ریفرنس پر آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔

لگ بھگ ساڑھے بارہ برس قبل سپریم کورٹ کو بھیجے گئے ریفرنس میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک بیان کو بنیاد بنایا تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ نسیم حسن شاہ ایک ٹی وی انٹرویو میں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ پر سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کی حکومت کی طرف سے دباؤ کا اعتراف کیا تھا۔

صدارتی ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں کرنے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں کی گئی جو آئین کی خلاف ورزی تھی۔

صدارتی ریفرنس میں سرکاری وکیل کے طور اُس وقت بابر اعوان ایڈووکیٹ پیش ہوئے تھے جن کا مؤقف تھا کہ قتل میں اعانت پر کسی بھی شخص کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔

بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت میں ابتدائی دلائل میں کہا تھا کہ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس کا حوالہ کسی بھی عدالتی فیصلے میں نہیں دیا جاتا۔

اُنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں کا رویہ متعصبانہ تھا۔