دلیپ کمار کبھی فرمواش نہیں ہوں گے

دلیپ کمار کبھی فرمواش نہیں ہوں گے
جب وہ کہتے تھے ’پارو میری ماں مر گئی ہے‘ تو سنیما گھروں میں ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی تھی اور جب کہتے کہ ’کون کمبخت برداشت کرنے کو پیتا ہے میں تو اس لئے پیتا ہوں کہ سانس چل سکے‘ تو جانے کتنے دیوداس اپنی داسییوں کو یاد کرتے تھے۔

دلیپ کمار صاحب آپکی خدمات بھارتی سنیما کے لئے ناقابل فراموش ہیں ان کا نام بھارتی سلور سکرین پر ہمشہ کے لیے امر ہو گیا ہے۔ 11 دسمبر 1922 کو پشاور میں جنم لیا والدین نے ان کا نام یوسف خان رکھا مگر جب 1944 میں فلمی دنیا میں قدم رکھا تو فلمی نام دلیپ کمار رکھا اور یوں یہ نام انکی شخصیت کا حصہ بن گیا۔ 5 دہائیوں تک بالی وڈ میں اپنی شاندار ادکاری کے جوہر دکھانے والے دلپپ کمار کے مرنے کی خبر چلنے کے فوراً بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نے ٹوئٹر پر اس عظیم الشان اداکار کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

40 کی دہائی میں دلیپ کمار کی قابل ذکر فلموں میں جوار بھاٹا جس سے ان کو بریک ملا اس کے علاہ شہید  میلہ اور انداز شامل ہیں۔ میلہ فلم سے پہلے ان کو بطور کامیاب ہیرو کے تسلم کیا گیا اس فلم میں دلیپ کمار نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ کام کیا۔ محبوب خان کے انداز میں پہلی بار وہ راج کپور دلپپ کمار اور نرگس کی تکون پیش کی گئی جو بہت پسند کی گئی۔

50کی دہائی میں دلیپ کمار نے کامیاب فلموں کی لائن لگا دی اور بولی وڈ کے سٹار بن گئے ،جوگن ،بابل ،ہلچل،ترانہ،داغ، نیا دور، یہودی،دیوادس اورمغل اعظم جو 1960 میں ریلیز ہوئی جس کی تکمیل میں دس سال لگے۔ دیوداس میں ناکام عاشق کا کردار اس مہارت سے نبھایا کہ بھارتی سلور سکرین میں المیہ ادکاری ان کے نام سے منسوب ہوگی ان کو ٹریجڈی کنگ کہا جانے لگا، اور پھر مغل اعظم جو پرتھوی راج کپور اور دلیپ کمار کے طویل اور شاندار مکالموں کے باعث ایک اساطیری فلم بن چکی ہے۔

60 کی دہائی کی ابتدا مغل اعظم سے کی بعد میں گنگا جمنا،دل دیا درد لیا، رام اور شیام ،لیڈر ،اور آدمی جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں، اس دروان ان کو ہالی وڈ سے فلم لارنس آف عربیہ میں ایک کردار کی آفر ہوئی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

70 کی دہائی میں داستان ،گوپی ،بیراگ،  سگنیا جسی فلموں میں کام کیا مگر اب عمر بڑھنے کے باعث انہوں نے 80 کی دہائی میں کریکٹر ایکڑ کے کردار کرنے شروع کر دیے ،منوج کمار کے ساتھ کرانتی جس میں شیشی کپور شترو گھن سنہا اور ہیما مالنی تھیں ،وہدھتا میں سنجے دت ،شمی کپور اور سنجو کمار ،شکتی میں گریٹ امیتابھ بچن ،مشال میں انیل کپور دنیا میں رشید کپور مزدور میں راج بیر اور کرما میں انیل کپور جیکی شروف نصیرالدین شاہ تھے ،یہ ساری فلموں میں دلیپ کمار کا فن ہمالیہ سے اونچا رہا خاص طور پر شکتی میں گریٹ امیتابھ بچن کے ساتھ ان کے مکالمے بہت پسند کیے گئے۔

90 کی دہائی میں صرف دو فلموں میں کام کیا سوداگر میں راج کمار کے ساتھ اور قلعہ میں ریکھا کے ساتھ ،راج کمار کے ساتھ انکے مکالموں کی ادائیگی کی دھوم خوب مچی اور فلم سپر ہٹ رہی گونیدا کے مادھوری ڈکشٹ کے ساتھ عزت دار بھی ریلیز ہوئی ،مدھو بالا ،وجنتی مالا کامنی کوشل اور ساہرہ بانو کے ساتھ انکے رومانس چلے اور ساہرہ بانو سے شادی کی جو مرتے دم تک انکی خدمت کرتی رہیں۔

دلیپ کمار 2000 سے 2006 تک راجیہ سبھا کے رکن رہے ،1979 سے 1981 تک مبہمی کے شروف رہے ،وہ واحد ادکار ہیں جن کو بھارت کا پدم شری ایوارڈ اور پاکستان کا نشان امتیاز مل چکا ہے اور 8 چار فلم فیئر ایوارڈ جیت چکے ہیں ان کی زندگی میں صرف ایک ہی اعزاز نیشنل ایوارڈ ہے جو ان کو کبھی نہیں ملا ، دلیپ کمار کا نام بھارتی سنیما سکرین کے ماتھے کا جھومر بن چکا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔