پاکستان خطے کا ایک ایسا ملک ہے جسے دیکھنے اور ان دیکھے دونوں جانب سے خطرات کا سامنا ہے ، ایسے میں اگر پاکستان کے دفاعی منصوبہ ساز اپنی معاشی و اقتصادی توجہ مرکز عسکری ساز و سامان اور جدید دور کے تقاضوں پر مرکوز رکھتے ہیں تو ان پر ملک کی بجٹ کا ایک بڑا حصہ لینے کا الزام لگادیا جاتا ہے ۔ عام عوام شاید بیرونی اور اندرونی سرحدوں کی حساسیست اور ملک کی حفاظت کے لئے درکار ہتھیار اور دفاعی نظام کی اہمیت سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہوتے۔
آیئے اس مالی سال کے بجٹ کی روشنی میں اصل حقیقت کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، اصل میں قوم کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ، چاروں جانب انارکی جیسی صورتحال بنائی جا رہی ہے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں کرسیاں اچھالنا ٹی وی پر شور شرابے والے ٹاک شو میں اپنا بیانیہ درست ثابت کرنا اور سیاسی جلسوں میں شعلہ بیانیاں دکھانے کے علاوہ ، حکومت اور اپوزیشن نے عوام کو صرف مایوسی اور معاشی تباہ کاریوں کے سوا کچھ نہیں دیا ہے ۔
بڑے بڑے دعوے اور بڑھکیں مارنے والوں کو ایک بات یاد رکھنی ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں پر رہنے والا تیسری دنیا کا یہ ملک اب تک اپنی عوام کو بنیادی ضروریات کی زندگی کی ضمانت دینے سے قاصر ہے ۔ ایسے میں جب کہ کرپشن نے عوام کو ترقی کے روشن پاکستان سے بہت دور کر دیا ہے، ملک کو لاحق دیگر خطرات سے بچانے کا کام کسی کو تو کرنا ہے۔
پاکستان معاشی شاہراہ کے ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے ۔ نامور پاکستانی ماہر معاشیات اور وزیر اعظم کے اقتصادی مشاورتی پینل کے سابق ممبر ، ثاقب شیرانی کے ڈان میں شائع ایک مضمون کے مطابق ، ’پاکستان تین دہائیوں سے کم معاشی نمو کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے۔ 1990 کے بعد سے ، جی ڈی پی کی حقیقی نمو اوسطا 4.2 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں ، اسی عرصے کے دوران ، جنوبی ایشیاء کی اوسطا اقتصادی شرح نمو 6 فیصد ہے۔ پچھلے تین سالوں میں ، پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی نمو کی شرح اوسطا 1.9 فیصد تک کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے 2018 کے ادائیگیوں کے توازن اور کوویڈ 19 وبائی امراض کے مشترکہ اثرات ہیں۔
اس بجٹ کی ساکھ پر کئی سوال کھڑے ہوئے ہیں ۔ پاکستان کے معاشی ماہر جناب حفیظ پاشا ، معیشت کی ایک خوبصورت تصوراتی تصویر پیش کرتے ہیں کہ شاید اسی وجہ سے عمران خان حکومت پر کچھ سیاسی دباؤ کم ہو جائے اور بڑھتے ہوئے درجۃ حرات میں کمی واقع ہو جس کے بعدشاید کسی حد تک آئی ایم ایف کے ساتھ نرم الفاظ میں بات چیت کرنے میں بھی مدد مل جائے۔
اگر پاک وفاقی حکومت ساڑھے چار ٹریلین کی پوری بجٹ آمدنی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ، تو پھر بھی ایک بڑے مسئلے کو حل کرنا باقی رہ جاتا ہے ۔ تقریبا پوری خالص آمدنی کا حساب 3.1 ٹریلین کی ڈیٹ سروسنگ اور 1.37 ٹریلین کے دفاعی اخراجات سے ہوتا ہے۔ حکومت کے باقی اخراجات اضافی قرضوں میں اضافے کے ذریعہ سرانجام دیئے جائیں گے۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں مذکورہ بالا آئی ایم ایف کو مرحلہ وار شریک ہونا پڑے گا۔
اس معاشی منظرنامے میں بھی ، حقیقت یہ ہے کہ اس پر توجہ دی جانی چاہئے کہ پاکستان مالی سال 2021-2202 کے 1.37 ٹریلین (8.78 بلین ڈالر) کے اعلان کردہ بجٹ کے ساتھ دفاعی بجٹ میں 6 فیصد اضافہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ، یہ مختص مالی سال 2021–22 کے لئے حکومت کے کل اخراجات کا 16 فیصد کی نمائندگی کرے گا۔
جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کیا کہ پاک آرمڈ فورسز نے رضاکارانہ طور پر اپنے اخراجات میں کٹوتی کر لی ہے ، لیکن مذکورہ بالا مختص میں واضح اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ، یہ فوجی اخراجات آئندہ مالی سال کے لئے پاکستان کے متوقع جی ڈی پی کے 2.6 فیصد کے برابر ہیں۔
معروف معاشی ماہر ڈاکٹر فرح ناز نے مشہور پاکستانی روزنامہ دی نیشن میں اپنی رائے کچھ یوں پیش کی ہے کہ ، ’پاکستان کے موجودہ دفاعی حالات کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جن میں مغربی محاذ ، مشرقی محاذ کے ساتھ ساتھ اندرونی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔‘ بہت سارے پاکستانی اسٹریٹجک تجزیہ کاروں کی طرح ، وہ یہ کہتے ہوئے بھی زیادہ رقم مختص کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ معمولی منصوبہ پاکستان کی اسٹریٹجک ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ ، یہ بات بھی قطعی طور پر یقینی ہے کہ پچھلے مالی سال کی طرح ، پاک مسلح افواج کو مالی سال کے بعد کے مرحلے میں اضافی رقم مختص کی جائے گی۔
ایک اور اقتصادی امور کے ماہر اینڈریو میکڈونلڈ نے اس پر کچھ یوں روشنی ڈالی ہے کہ ’مسلح خدمات کے لحاظ سے ، پاک فوج کو 2021-22 (یا مجموعی طور پر تقریبا 48 فیصد) میں 651.5 بلین وصول ہوگا ، جبکہ پاک فضائیہ اور پاکستان نیوی کو مختص کیا گیا ہے 291.1 بلین اور 148.7 بلین (یا 21٪ اور 11٪) بالترتیب۔ بقیہ اکثریت دفاعی وسیع ضروریات کے لئے مختص کی گئی ہے‘۔ میکڈونلڈ نے مزید کہا ، ’ایک علیحدہ تخصیص میں ، پاکستان کی دفاعی پیداوار ڈویژن ، جو قومی دفاعی صنعت کی حمایت کرتا ہے ، کو 2021-22ء میں مل جائے گا ، جو کہ 11 فیصد کے قریب ہے۔‘
اب سمجھنا یہ ہے کہ اس بجٹ کے ذریعے کون سے بڑے دفاعی منصوبوں کے لئے فنڈز دیئے جارہے ہیں؟ پاک افواج جنہیں روایتی طور پر ایک بڑا بجٹ کا حصہ ملتا ہے ، وہ اپنی مشینی قوتوں اور توپ خانوں کی اپ گریڈیشن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مقامی طور پر بنائے جانے والے الخالد ٹینک سے ناخوش ، ایک وفد سی او ایس مئی 2021 کے آخر میں یوکرین گیا تھا جہاں یوکرائن کے ٹی۔ 84 ’اوپلٹ ایم‘ ایم بی ٹی کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خطہ کی موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ، اپنی افواج کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے پاکستان بجٹ کا ایک بڑا حصہ ان امور پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔
پاک فضائیہ اپنی فضاوں کی حفاظت کے لئے اپنی مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چین کی طرف پر امید توقعات وابستہ رکھ رہی ہے، اس حقیقت میں یقینی بات ہے کہ پی اے ایف نے چینی بینکوں سے JF-17s کے حصول کی مالی اعانت کے لئے کچھ قرض لیا ہے ۔
اسی طرح پاک بحریہ بھی اپنی بحری بیڑے کے طاقت میں اضافے کا منصوبہ رکھتا ہے ، اطلاعات نے اس حقیقت کی بھی تصدیق کردی ہے کہ شاید پی این غیر معتبر چینی ہتھیاروں سے تنگ آچکا ہے اور اس نے ترک جہازوں میں 1.5 ارب ڈالر میں جنگی جہاز تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے جس کے لئے موجودہ بجٹ سے ہی ادائیگی کی جانی ہے۔
خطے کے دیگر ممالک میں ڈرون کے بڑھتے ہوئے استعمال کر دیکھ کر پاک افواج بھی ڈرون کے حصول کی طرف گامزن دکھائی دیتی ہے۔ جیسا کہ نیشنل جرنل میں سارہ سکورچر نے انکشاف کیا ہے ، کرش / تباہ شدہ امریکی ڈرون چین کے حوالے کرنے میں پہلے کی پاکستانی سرمایہ کاری نے مدد دی ہے جس کے باعث امریکی ڈرونز کی ریورس انجینئرنگ سے فائدہ ہوا ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی واپس پاکستان کے نامور دیسی براق اور شاہ پار کی صورت پاکستان کو دستیاب ہوئی ہے۔
خطہ میں اگرچہ درجہ حرات میں نمایاں کمی واقع دکھائی دیتی ہے تاہم افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، پاک چائینہ اور امریکی تعلقات ، پاک ترکی معاملات یا پھر کسی بھی دوسری غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لئے پاک مسلح افواج مستقبل لائحہ عمل کے لئے سرگرداں ہے، وہ اب بھی اپنے روایتی حریف بھارت سے ہر میدان میں بھرپور مقابلہ کرنے کی فطری خواہش کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ دفاعی پالیسی سازوں کا یہ خیال ہے کہ وہ امن کی خواہش رکھنے کے ساتھ غیر یقینی مستقبل کی تیاری بھی کرےاوریقینی طور پر یہ ہر خودمختار ریاست کا حق بھی ہوتا ہے جس پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم ایک ترقی پذیر ملک کے عوام کے لئے ایک بڑا مسئلہ روز مرہ کے زندگانی کے مسائل اہم ہیں جبکہ ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں کے لئے خودمختاری اور سرحدوں کی حفاظت، یہ ایک ایسی کشمکش ہے جس سے آج کا پاکستان گزر رہا ہے جو ایک انتہائی کٹھن دوراہا ہے ۔