سندھ میں ہرنوں کا غیر قانونی شکار، نسل ناپید ہونے لگی

سندھ میں ہرنوں کا غیر قانونی شکار، نسل ناپید ہونے لگی
ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے 7.6 ارب انسان تمام جانداروں کا صرف 0.01 فیصد نمائندگی کرتے ہیں۔ پھر بھی تہذیب کے آغاز سے، انسانیت نے تمام جنگلی ستنداریوں میں سے 83 فیصد اور پودوں کے نصف کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ مویشی کی ایک بڑی تعداد انسانوں نے اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ انسان نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ یہ دنیا، یہ دھرتی فقظ انہیں کے لئے ہے۔

یہ ستمبر 1998 کی بات ہے جب بھارتی اداکار سلمان خان نے فلم "ہم ساتھ ساتھ ہیں" کی شوٹنگ کے لئے راجستھان کے شہر جودھپور کے گاؤں کانکانی میں نایاب نسل کے سیاہ ہرن کا شکار کیا۔

اگلے مہینے کانکانی گاؤں کے رہائشیوں کی فریاد پر تھانہ لونی میں سلمان خان سمیت ساتھی اداکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ اکتوبر 1998 میں سلمان خان کو اسی کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ پانچ دن بعد وہ ضمانت پر رہا ہوگئے۔ اگست 2007 میں راجستھان ہائی کورٹ کے حکم پر بھارتی اداکار کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اس بار انہیں ایک ہفتہ جودھپور جیل میں گزارنا پڑا۔ اپریل 2018 میں کورٹ نے کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے ایک بار پھر سلمان خان کو پانچ سال قید کی سزا اور دس ہزار روپے جرمانے کا فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے پر سلمان خان کو ایک بار پھر جودھپور سینٹرل جیل میں چند دن گزارنے پڑے۔

یہ بھارت کے مشہور اداکار سلمان خان پر نایاب ہرن کے شکار کا کیس تھا جو دو دہائیوں تک چلا اور اس دوران انہیں متعدد بار جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ لیکن، بھارت کے اسی صوبے کے ساتھ ہی سرحد کے اس اور پاکستان کے صحرائے تھر میں روزانہ کی بنیاد پر نایاب ہرن کا شکار کیا جاتا ہے۔ ہرن کا گوشت بااثر لوگوں کے دستر خوان کی زینت بنتا ہے، کئی بااثر لوگ اپنے شکار کا شوق نایاب ہرن کے خاندان اجاڑ کر پورا کرتے ہیں، انہیں قید کرتے ہیں لیکن یہ سب پولیس اور وائلڈ لائف اور قانون کے لمبے ہاتھوں سے دور رہتا ہے۔ یہاں نہ ملزمان اور نہ ہی مجرموں کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے نہ ہی عدالتیں پانچ سال قید کی سزا اور جرمانے کا فیصلہ سناتی ہیں۔

گذشتہ دنوں تھر کے ایک گاؤں رنگیلو میں اسی طرح دس نایاب نسل کی ہرن کا شکار کر کے جاتے ہوئے شکاریوں کو گاؤں کے لوگوں نے پکڑ لیا۔ شکاریوں کا تعلق بااثر لوگوں سے بتایا جا رہا ہے۔ تھر کے لوگوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں بلکہ تھر کے لوگ روزانہ شکار کی شکایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ کبھی تھم نہیں پایا۔ یہ کوئی پہلا ایسا واقعہ نہیں کہ مقامی لوگوں نے ہرن کے قاتلوں کو رنگے ہاتھوں پکڑا ہو بلکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ان جنگلی حیات کا شکار کرنے والے شکاریوں کو بااثر لوگوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے لوگوں کی خاص فرمائش پر ہرن کے گوشت سے ان کی خاطر تواضع کی جاتی ہے۔

مقامی شادیوں میں خاص طور پر ہرن کا شکار کر کے وی آئی پی ڈِش کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ آئے دن ویڈیوز بنا کر ببانگ دہل سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ قانون نافد کرنے والے اداروں کی چوکیوں (جہاں پر سخت چیکنگ ہوتی ہے) کے باوجود لوگ باآسانی گاڑیوں میں ہرن، تیتر اور دیگر نایاب جانوروں اور پرندوں کا شکار کرکے کیسے لے کر جاتے ہیں یہ ان اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ ہرن کا یہ شکار صرف مقامی سطح تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ یہاں سے شکار کئے گئے ہرن کراچی، لاہور اور اسلام آباد تک پہنچائے جاتے ہیں۔ جہاں بغیر اجازت نایاب جانور کا شکار ممنوع ہو، قانونی طور پر پابندی عائد ہو وہ جانور شکار ہو کر گاڑیوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور دوسرے صوبوں تک کیسے پہنچتا یے؟ کیا محکمہ وائلڈ لائف اس سارے عمل سے بے خبر ہے؟ یہ بات تو طے ہے کہ یہ شکار اداروں اور حکومت کے انجانے میں ہرگز نہیں ہوتا۔ تھر کے مقامی لوگو کا بتانا ہے شکاریوں کو بااثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

تھر میں چنکارا نسل کے ہرن، نیل گائے جبکہ پرندوں میں مور، تیتر سرفہرست ہیں۔ 2020 میں ایک اندازے کے مطابق اس علاقے میں 10 ہزار ہرن موجود ہیں۔ جبکہ 4 لاکھ مور، 200 تک نیل گائے اور بڑی تعداد میں تیتر اور خرگوش پائے جاتے ہیں۔ پہلے رات کے اوقات میں ہرن بکریوں کی طرح ریوڑ کی شکل میں آبادیوں میں گھاٹ اور کنوؤں سے پانی پینے آتے تھے اور علی الصبح انسان کے بیدار ہونے سے پہلے لوٹ جاتے لیکن شکار بڑھنے کے بعد اب یہ منظر بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔

محکمہ وائلڈ لائف کو حکومت سندھ کتنی اہمیت دیتی ہے اس کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ تھر میں وائلڈ لائف کا رقبہ 9 ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جس میں ڈیزرٹ ایریا میں فقط 10 ہزار ملازم تعینات ہیں جبکہ 35 آسامیاں عرصہ دراز سے خالی پڑی ہیں۔ جبکہ ضلع بھر میں محکمہ وائلڈ لائف کے پاس فقط 2 گاڑیاں موجود ہیں۔ وائلڈ لائف کے ایک مقامی عہدیدار کے مطابق جنگلی حیات کی بہتر طور پر نگرانی کے لئے کم سے کم ہر تحصیل میں دس ملازمین کی ضرورت ہے۔

مقامی لوگوں نے شدید غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد ہرنوں کی اسی دعا کے ساتھ تدفین کی کہ ایسا واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو، باقی ہرنیں محفوظ رہیں۔ لیکن، کیا حکومت ہرنوں کی حفاظت یقینی بنا پائے گی؟ حکومت جب تک ان جانوروں کی حفاظت کے لئے کوئی ٹھوس اقدام لے تب تک ہرن کو جینے دو۔