نئے پاکستان میں ناپید ہوتی صحافت کہیں ایک سوچی سمجھی سازش تو نہیں؟

نئے پاکستان میں ناپید ہوتی صحافت کہیں ایک سوچی سمجھی سازش تو نہیں؟
عرصہ ہوا پاکستان میں صحافت سے وابستہ افراد پر مسلسل قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ تنخواہوں کی عدم ادائیگی، چینلز اور اخبارات میں چھانٹیاں، بڑے بڑےصحافیوں کی اداروں سے معطلی کسی قیامتِ صغرا سے کم نہیں جو سب ایک بڑے عذاب کا پیش خیمہ ہیں۔

مجموعی رائے یہی ہے کہ یہ سب سرکاری اشتہارات کی بندش کے بعد شروع ہوا ہے۔ لیکن غور سے دیکھا اور حالات کو سمجھا جائے تو یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ لگتا یہی ہے کہ حکومت نے بہت سمجھ بوجھ کے بعد اس نئے پلان کو تیار کیا ہے۔

سرکاری اشتہارات سے یقیناً فرق پڑتا ہوگا لیکن ان کی عدم موجودگی سے کوئی بھی بڑا اخبار یا چینل اس قدر خسارے میں نہیں جا سکتا کہ ادارہ بند کرنے کی نوبت آ جائے یا ایک ساتھ دسیوں ملازمین کو فارغ کر دیا جائے۔

کچھ ہفتوں قبل فارغ کیے گئے سینیئر صحافی حضرات جیسے کہ طلعت حسین و دیگر کے پروگرامز کے دوران تو خاصے اشتہار چلتے ہی تھے، پھر آخر ان کو کس لئے نکال باہر کیا گیا؟

آج کل شائع ہونے والے اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالع کیجئے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں اب شاز ہی تحقیقی صحافت یا انویسٹیگیٹو جرنلزم باقی ہے۔ کیونکہ اسے کوئی کرنے پر اب تیار نہیں۔ جب ہر ایک موضوع شجرِ ممنوعہ بن جائے تو تحقیقی صحافت جو عوام کے مفاد کے لئے کی جاتی ہے اس کا گلا گھٹ جاتا ہے۔

سونے پر سہاگہ، ہمارے ہاں ٹیکنولوجی سے حاصل ہونے والی ترقی نے الٹا ہمیں پتھروں کے زمانے، یا یہ یوں کہیے کہ مارشل لا کے زمانے میں لا پھینکا ہے۔

اب ایک ٹوئیٹ ہی خبر بنانے کے لئے کافی ہے۔ کسی ادارے کے ترجمان نے ایک گھنٹہ لمبی تقریر کر دی اور لیجئے جناب ایک 4 کالم کی تفصیلی رپورٹ تیار۔ وزیرِ اطلاعات نے ایک بیان اپنے ٹوئٹر پر ڈال دیا کہ مثال کے طور پر آسیہ ابھی ملک میں موجود ہیں، بس جناب یہ حرفِ آخر ہو گیا۔ اس میں مزید تگ و دو کی گنجائش نہیں اور من و عن خبر ایسے ہی بن گئی۔

اسی طرح چیف جسٹس نے کہہ دیا کہ کراچی کے پاکستان کوارٹز کو خالی کروایا جائے کیونکہ یہ لوگ قابضین ہیں تو بس اس خوف سے کہ کہیں توہینِ عدالت نہ ہو جائے کسی نے جرأت نہیں کرنی کہ قلم اٹھائے اور لکھے کہ ارے بانیانِ پاکستان کی یہ اولادیں 50 سال شے ان زمینوں کا کرایہ ادا کرنے کے بعد کدھر کو اپنے خاندان کے لئے چھت تلاش کریں؟

ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ ڈان اخبار پہلے کسی بیان کی خبر بناتا تھا تو یہ بات ضرور لکھا کرتا تھا کہ اس خبر کی تصدیق دوسرے آزاد ذرائع کی مدد سے نہ ہو سکی۔ لیکن اب وہ بھی لکھنا گمان یہی ہے کہ منع کر دیا گیا ہے کیونکہ بھلا ایک ریاستی ادارہ جھوٹ کیسے گھڑ سکتا ہے۔

اب ایسی صورحال میں کیا ضرورت کسی سر پھرے صحافی یا رپورٹر کی؟ ایک اعلامیے یا بیان سے خبر نکالنے میں کتنی محنت لگتی ہے؟ یہ تو کلرک ہی پلک جھپکتے میں کر سکتا ہے۔ اور پھر اداروں کی ڈیسک کس لئے ہے؟ وہی اب سارا کام سنبھال سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انگریزی کے سب سے بڑے اخبار نے کئی عرصہ سے کوئی رپورٹر ملازمت پر نہیں رکھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرے انگریزی اخبار نے کراچی اور پشاور سے حالیہ دنوں اپنے تمام رپورٹرز کو چلتا کیا۔

آج ہی پیمرا کے چیئرمین آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل سے ملے ہیں جس میں دونوں صاحبان نے اس بات پر گفتگو کی ہے کہ کیسے میڈیا کے ذریعے پاکستان کی مثبت تصویر دکھائی جائے اور ملک کے خلاف پراپیگنڈے کی روک تھام ہو۔ یہ تو اس ملک بننے کے وقت سے جاری ہے جب بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی ستمبر 11 کی تقریر تک کو سنسر کیا گیا۔

اب جب کہ صحافیوں کو اپنی نوکری کے لالے ہی پڑ گئے ہیں اور تنخواہ نہ ہونے کی وجہ سے فاقوں کی سی نوبت ہے تو کہاں کی مزاحمتی تحریریں، تحقیقی رپورٹس اور تنقیدی مضامین؟ یہ سب چل سکتا تھا جب روٹی کا آسرا ہوتا۔

اس اثنا میں میڈیا مالکان کا وہ خواب پورا ہوتا نظر آتا ہے جس کو وہ کب سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ کوئی بھی مدیر، جو پہلے  اپنی جیب میں استعفا رکھ کر بےباکی سے کام کرتا تھا، کسی خبر کو ہٹانے کے حوالے سے مزاحمت نہ کرے۔

صحافی حضرات نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو فسطائیت مزید سر چڑھ کر بولے گی۔ اس ٹیکنولوجی کے دور میں بہت سے راستے ہیں جن کو چن کر مزاحمت جاری رکھی جا سکتی ہے اور آزادیِ صحافت کے لئے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ وسائل موجود ہیں، ہاں مگر ان کو بروئے کار لانے کے لئے کچھ ہمت درکار ہے۔

مصنف صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔