قاضی فائز عیسیٰ کیس: کیس ہارتی حکومت کو عدالت نے مشروط نئی لائف لائن دے دی

قاضی فائز عیسیٰ کیس: کیس ہارتی حکومت کو عدالت نے مشروط نئی لائف لائن دے دی
آج 9 بج کر 20 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں موجود تھا۔ 9 بج کر 22 منٹ پر حکومتی ایم این اے اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکا بخاری آ کر ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ٹھیک تین منٹ بعد وفاق کے وکیل اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم بھی کمرہ عدالت میں داخل ہو گئے۔ کمرہ عدالت میں ہم تین صحافیوں سمیت چند لوگ ہی موجود تھے۔ 9 بج کر 32 منٹ پر دربان ہجوم کی صورت کمرہ عدالت میں داخل ہوئے اور آواز لگی کورٹ آ گئی ہے تو دس ججز اپنے ہاتھ ججز گاؤن کے آگے باندھے آہستہ آہستہ اپنی اپنی نشستوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ ججز نے گاؤن کے سامنے ہاتھ شاید اس لئے باندھے ہوتے ہیں کہ گاؤن سامنے سے بند ہی رہے۔ آج صرف جسٹس منصور علی شاہ نے N-95 ماسک پہن رکھا تھا جب کہ باقی ججز سادہ سرجیکل ماسک میں تھے۔ ججز کے بیٹھتے ہی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ آج کن نکات پر دلائل دیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں تین نکتوں پر بات کروں گا: پہلا جج میں عوامی اعتماد، دوسرا کمپنیز لا اور تیسرا جج کو حاصل اختیار کے ساتھ عائد ہوتی بھاری ذمہ داری۔

وفاق کے وکیل اس سے پہلے باقاعدہ دلائل کرتے دس رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے انتہائی اہم اوپننگ ریمارکس دے کر کم از کم آج تک حکومت کو ایک بہت بڑے ریلیف کی مشروط پیشکش کر دی۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا آپ نے کل ہمیں جو بتایا، اس سے ہم متفق بھی ہیں کہ جج کے عہدہ پر ذمہ داری بھی بڑی ہوگی لیکن منیر اے ملک نے بہت اہم ایشوز اٹھائے تھے، ان کا جواب دیں کہ بدنیتی، غیر قانونی طریقے سے مواد اکٹھا کرنا، جاسوسی اور مواد کی غیر قانونی طریقے سے صدر تک ترسیل۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر آبزرویشن دی کہ شوکاز نوٹس جاری ہونے کے باوجود ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگر اس میں کوئی بدنیتی ہے تو یہ ہمارا دائرہ اختیار ہے کہ ہم اس ریفرنس کو سٹرائک ڈاون کر دیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے ریفرنس میں صرف ایک بات تسلیم شدہ ہے کہ جائیدادیں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے دو دفعہ دہرا کر کہا کہ مسٹر فروغ نسیم ہم نے ایک انتہائی چھوٹی اور میں کہہ رہا ہوں انتہائی چھوٹی سی بات نوٹ کی ہے کہ خریداری کے ذرائع کیا تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یہ بتانے سے انکاری نہیں ہیں بلکہ صرف وہ کہہ رہے ہیں فورم قانونی ہو جو ایف بی آر ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ آپ کو قانونی طور پر پہلے انکم ٹیکس آرڈیننس کے رول 114 کے تحت نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرنا چاہیے تھا لیکن آپ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر دیا حالانکہ آپ کو جج کے خلاف نہیں جانا چاہیے تھا لیکن آپ پھر بھی گئے۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے اپنے طویل ابتدائی ریمارکس کو ان جملوں پر مکمل کیا کہ اگر آپ ( بیرسٹر فروغ نسیم، وفاق) اب بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں مقدمہ چلانا چاہتے ہیں تو پہلے یہاں ہمیں جواب دیں اور اس صورت میں ہم فیصلہ دیں گے جس میں بدنیتی پر بھی بات کریں گے۔



گذشتہ سماعت کی کارروائی کا احوال: پاکستان بھر کی بارز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑی ہیں، ان پر آج تک مالی کرپشن کا الزام نہیں لگا، جسٹس عمر عطا بندیال







جسٹس عمر عطا بندیال نے چہرے پر معنی خیز تاثرات کے ساتھ سر کو ہلکی ہلکی جنبش دیتے ہوئے بدنیتی کے نکتے پر حکومت کو فل کورٹ کے موڈ سے خبردار کیا کہ آپ بنچ کو دیکھ رہے ہیں، سب نہیں، لیکن پھر بھی کچھ ججز بدنیتی پر بات کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال دراصل بیرسٹر فروغ نسیم کو بنچ میں ججز سوالات سے ججز کا موڈ بتا رہے تھے۔ کون کون جج بدنیتی پر زیادہ بات کر رہا ہے تو وہ یقینی طور پر فیصلے میں بھی بدنیتی کو موضوع بنائے گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال خاموش ہوئے تو ان کے دائیں ہاتھ بیٹھے ہمسایہ جج جسٹس مقبول باقر نے وارننگ کو مزید سخت کر دیا کہ یاد رکھیے اس کے قانونی نتائج ہوں گے۔ جسٹس فیصل عرب نے وفاق کے وکیل کی پیشکش کو سنجیدگی سے لینے کے لئے ریمارکس دیے کہ میرے سینئیر نے بہت اچھا آپشن دیا ہے۔ تمام ریمارکس دائیں ہاتھ سے ہی آ رہے تھے اور اب دائیں طرف ہی بیٹھے جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو ایف بی آر جانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور اگر ایف بی آر کے ذریعے جواب نہ ملے تو آپ سپریم جوڈیشل کونسل سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ ذرائع کا جواب نہ ملنے کی صورت میں سپریم جوڈیشل کونسل دوبارہ جا سکتے ہیں کیونکہ ہم بھی نہیں چاہیں گے کہ سپریم کورٹ کا نام خراب ہو۔

اس پیشکش کے دوران جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے دو بار سر گھما کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جسٹس فیصل عرب نے حکومت کے لئے مزید آسانی پیدا کرنے کے لئے پیشکش کو مزید پرکشش بناتے ہوئے کہا کہ آپ انکم ٹیکس کمشنر لیول کے افسر سے یہ ڈکلیریشن لے لیں کہ وہ جواب سے مطمئن نہیں تو سپریم جوڈیشل کونسل جا سکتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے ایک بار پھر پیشکش سے اختلاف کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ میری رائے میں صرف پورا قانونی عمل مکمل کر کے رجوع کیا جائے تو اعتراض نہیں ہوگا۔

دراصل جسٹس مقبول باقر ایک دن پہلے جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کل کہا تھا کہ ایف بی آر بھی اگر جج کے اہلخانہ کے خلاف فیصلہ دے تو پھر ٹربیونل میں اپیل کا آپشن ہوگا جس کے بعد ہائی کورٹ میں اپیل کا آپشن ہوگا اور اس کے بعد آپ سپریم کورٹ آ سکتے ہیں تو آج جسٹس مقبول باقر یہی کہہ کر جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس فیصل عرب کی پیشکش سے اختلاف کر رہے تھے کہ صرف انکم ٹیکس کمشنر کے ڈکلیریشن کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل نہیں جایا جا سکتا۔

وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کی پیشکش پر سوچ سوچ کر آہستہ آہستہ الفاظ ادا کرتے ہوئے فل کورٹ سے سوال کیا کہ اگر ہم ایف بی آر سے رجوع کرتے ہیں تو کیا آپ ایف بی آر کو پابند بنائیں گے کہ وہ ایک مقررہ مدت میں اپنی کارروائی مکمل کرے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر کا نام لیے بغیر کہا کہ بنچ کے کچھ ارکان کو قانونی عمل مکمل نہ ہونے پر اعتراض ہے لیکن ڈسپلن کی کارروائی تو ہونی چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ڈسپلن کی کارروائی کا انحصار بہت سے پہلوؤں پر ہوتا ہے اور آپ جب تک وہ تمام بنیادیں مکمل نہیں کر لیتے، ڈسپلن کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ جج کہہ رہا ہے کہ جائیدادیں اہلیہ کی ہیں تو آپ جج کے خلاف ڈسپلن کی کارروائی نہیں شروع کر سکتے اور بیوی آپ کے ڈسپلن کے دائرہ کار میں نہیں آتی۔



یہ بھی پڑھیے: ’فروغ نسیم ہمیں میاں بیوی کا بائیو لوجیکل ریلیشن شپ سمجھا رہے ہیں







بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر ڈسپلن کی کارروائی شروع ہو جائے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بیوی خود مختار ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں جج یہ کہہ کر بری نہیں ہو سکتا کہ جائیدادیں بیوی بچوں کی ہیں، چلیں اچھا نکتہ ہے۔

اس موقع پر فل کورٹ کی پیشکش کی طرف واپس آتے ہوئے جسٹس منیب اختر نے آپشنز کی مزید وضاحت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر سے رجوع کرنے کی صورت میں تین آپشن ہو سکتے ہیں۔ پہلا ایف بی آر کہے کہ وہ اہلیہ کے جواب سے مطمئن ہے، دوسرا ایف بی آر کہے وہ مطمئن نہیں لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کہے وہ مطمئن ہے اور تیسرا کہ ایف بی آر اور سپریم جوڈیشل کونسل دونوں مطمئن نہ ہوں تو آپ کو ایف بی آر کو ضرور آزمانا چاہیے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے پھر پوچھا کہ کیا ایف بی آر کو کوئی طے شدہ مدت دی جائے گی کارروائی مکمل کرنے کے لئے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ بالکل، انکم ٹیکس کمشنر معاملہ دیکھے گا کہ ذرائع آمدن کیا تھے، وہ حلال تھے یا دوسرے۔ جسٹس فیصل عرب نے ایک بار پھر ریمارکس دیے کہ اگر کوئی ایسی ویسی بات نکلتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل دیکھ لے گی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر مجھے صدر اور وزیراعظم سے مشورے کی مہلت چاہیے ہوگی۔ فل کورٹ کے 9 ججز کورٹ روم کی لائٹس میں بیٹھے تھے جب کہ جسٹس مقبول باقر پر چھت سے سورج کی روشنی ایک دائرہ کی صورت میں چھلک رہی تھی جس سے وہ بینچ میں سب سے جدا نظر آ رہے تھے۔

جسٹس مقبول باقر نے ایک بار پھر اپنے ساتھی ججز سے اختلاف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میری اس طریقہ کار پر رائے مختلف ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے جسٹس مقبول باقر کی مسلسل اپوزیشن پر ریمارکس دیے کہ بہرحال وہ فیصلہ تو بنچ میں ججز کی اکثریت کا ہوگا لیکن فروغ نسیم صاحب آپ حکومت سے مشورہ کر کے تو آئیں۔

ججز کی اس پیشکش سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ آپشن یقیناً سماعت شروع ہونے سے قبل چائے پر ججز میں موضوع بحث رہی ہے۔ جسٹس مقبول باقر کی کھلی مخالفت اور بعض ججز کی معنی خیز خاموشی سے معلوم ہوتا تھا کہ بنچ اس پیشکش پر تقسیم ہے لیکن پھر بھی فل کورٹ کے سربراہ نے یہ پیشکش کر دی تھی۔ میں پیشکش سنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام لگایا کہ ان کی غیر قانونی جاسوسی کی گئی، غیر قانونی طریقے سے معلومات اکٹھی کی گئیں اور ریفرنس کے پیچھے بدنیتی ہے جو فیض آباد دھرنا کیس کی وجہ سے ہے تو کیا ایف بی آر جانے سے یہ سب الزامات ختم ہو جائیں گے اور اگر ان الزامات میں سچائی بھی ہے تو کیا ایک ایف بی آر سے رجوع کرنے سے حکومت کا ریفرنس جائز ہو جائے گا۔ ریفرنس دائر کرنے والی شخصیات سے منسلک مختلف ذرائع سے کی گئی گفتگو کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کر سکتا ہوں کہ یہ ریفرنس اگر ناکام ہو بھی گیا تو یہ پہلا راؤنڈ ہے۔ ریاست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک دوسرا راؤنڈ ضرور کھیلے گی جو شاید زیادہ خطرناک ہو۔ ریاست صرف ایک ہی صورت میں پیچھے ہٹ سکتی ہے کہ بدنیتی اور جاسوسی پر کوئی واضح فیصلہ آئے۔

بہرحال سماعت کی طرف واپس آتا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج صاحب کو اپنی اہلیہ کی جائیدادوں کا جواب دینا ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے بڑا اہم سوال پوچھا تھا کہ اگر شوہر بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک رسائی ہی حاصل نہ کر سکتا ہو تو وہ جواب کیسے دے سکتا ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سرکاری ملازم یہ نہیں کہہ سکتا کہ میری بیوی مجھے نہیں بتا رہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر بیوی شوہر کو معلومات دینے سے انکار کر دے تو کیا جج پر مس کنڈکٹ کا ریفرنس دائر ہو جائے گا کہ آپ بیوی سے جواب لینے میں ناکام ہو گئے تو مس کنڈکٹ ہو گیا۔ اس ہی گفتگو کے دوران کورٹ روم نمبر ون کے عملہ نے کمرہ عدالت میں موجود شرکا کے لئے مخصوص نشستوں پر موجود جسٹس عمر عطا بندیال کی انٹرن کو بلوایا۔ وہ جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس آئیں اور ان سے کچھ پوچھا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کو ہاتھ کے اشارے سے بینچ کے سامنے سٹاف کے لئے مخصوص نشست پر بیٹھ کر کام کرنے کی ہدایت کی اور وہ خاموشی سے عملہ کے ساتھ بلیک لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئیں۔



یہ بھی پڑھیے: ’ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کی بدنیتی تھی یا نہیں؟‘ قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس وینٹی لیٹر پر







بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جج نے سپریم جوڈیشل کونسل یا فل کورٹ میں جمع کروائے گئے کسی جواب میں نہیں کہا کہ وہ بیوی سے معلومات مانگ رہے ہیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ مدراس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر آج ایک جج کو اجازت دے دی تو کل ہر کرپٹ سرکاری افسر یہی کہے گا کہ میں اپنے بیوی بچوں کا جواب کیوں دوں، وہ خودمختار ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایف بی آر یہ سوال پوچھ لے گی نا۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ جج سے وہ سوال بھی پوچھ لیں جو قانون میں موجود نہ ہوں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ اگر جج کہتا ہے کہ وہ جواب دیتا ہے لیکن آپ اگر جج کے ہاتھ پاؤں باندھ کر جواب مانگیں تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر جج کہہ دے کہ آپ اس سے بیوی کے اثاثوں کا نہیں پوچھ سکتے تو خطرناک مثال قائم ہوگی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ نہیں، نہیں ایف بی آر پوچھ سکتا ہے۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ایف بی آر نے پوچھا تھا۔ جسٹس یحییٰ نے ٹوکا کہ جی نہیں، ایف بی آر کو آپ نے پہلے خط لکھا اور ایف بی آر کا خط بعد میں گیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی مثال دی کہ میں سینیٹر ہوں اور مجھ سے الیکشن کمیشن میری اہلیہ کے اثاثوں کا سوال پوچھ لے اور میں انکار کر دوں تو وہ مجھے نااہل کر دیں گے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ کارروائی تحقیقات کے بعد ہی ہوگی۔

جسٹس یحییٰ نے سوال پوچھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں آنے سے پہلے ایف بی آر اور ایسٹ ریکوری یونٹ نے کیسے معلومات کو حاصل کیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ معلومات ہونی تھیں تو ریفرنس کی بنیاد بننا تھی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے بیرسٹر فروغ نسیم کے جواب کو رد کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ تحقیقات صرف سپریم جوڈیشل کونسل کروا سکتی تھی لیکن آپ نے تو خود سے تحقیقات کرنے کے بعد ریفرنس دائر کیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کو اندازہ ہونا چاہیے آپ کے ریفرنس میں نقائص ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ابھی تک ایسٹ ریکوری یونٹ اور دوسرے سوالات کے جواب نہیں دیے۔ بیرسٹر فروغ نسیم پسپا ہوتے ہوئے واپس فل کورٹ کی پیشکش کی طرف آئے اور سوال کیا کہ سر اگر حکومت ایف بی آر جائے تو کتنی مدت طے کی جائے گی کارروائی کے لئے؟ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دو ماہ کی تو عدالتی چھٹیاں ہیں اس دوران کوئی دوسرا کام نہیں ہونا۔ بہتر ہے آپ ان دو ماہ میں ایف بی آر کی کارروائی مکمل کر لیں۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں کیسے ایف بی آر کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ افتخار چوہدری کیس میں فیصلہ جسٹس رمدے نے دیا تھا لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم نے اس فیصلے میں جسٹس اعجاز چوہدری کی رائے کو اپنی پیٹیشن کی بنیاد بنایا ہے جس کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل معاملہ تحقیقات کے لئے صدر کو بھیجے اور صدر کابینہ کی منظوری سے تحقیقات کروائے گی۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس کی افتخار چوہدری کے کیس میں حقائق مختلف تھے۔ تب ایک ہی روز میں استعفا مانگا گیا اور اسی دن چیف جسٹس کو معطل کر کے قائم مقام چیف جسٹس بھی بنا دیا گیا جس نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کا انعقاد بھی کر دیا جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس میں حقائق مختلف ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ مواد موجود تھا تو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس جاری کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جواب دیا کہ ہمیں شوکاز نوٹس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہمارا نکتہ یہ ہے کہ کیسے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جج اپنی بیوی کا جواب دے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے جوابات میں ہر چیز پر بات کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ جائیدادیں کہاں سے آئیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال پوچھا کہ بتائیں کس قانون کے تحت جج یہ جواب دینے کا پابند ہے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے اب پوزیشن لی کہ سر یہ آج جو فیصلہ آپ کریں گے یہ آنے والے سالوں کے لئے بھی ہوگا اور ہمیں مستقبل کا بھی سوچنا ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ صدر کا کردار خود مختار ہے یا وہ مشورے پر عمل کا پابند ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ صدر کو خودمختار ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ ایگزیکٹو کا حصہ بن گیا تو اس کا مصالحت کار کا کردار ختم ہو جائے گا اور وہ اپنی رائے خودمختاری سے نہیں دے سکے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک ہاتھ دل پر اور دوسرے سے جسٹس منصور علی شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی عاجزانہ انداز میں کہا کہ سر میرے میں دل میں انتہائی تکلیف ہو رہی ہے یہ کہتے ہوئے کہ آپ جو کہہ رہے وہ آرٹیکل 48 کے خلاف ہے۔



یہ بھی پڑھیے: کیا عدالت کہہ سکتی ہے کہ جنابِ صدر آپ نے ہمیں غلط ریفرنس بھیجا، ججز کا فروغ نسیم سے سوال







جسٹس منصور علی شاہ کچھ کہنے لگے تو بیرسٹر فروغ نسیم جلدی سے بولے کہ سر مجھے اپنی بات پوری کرنے دیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں آپ کو سن رہا ہوں اور نہیں چاہتا آپ کے دل کو مزید کوئی نقصان پہنچے۔ کمرہ عدالت میں قہقہ لگا اور بیرسٹر فروغ نسیم نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا کہ میرے دل کا خیال کرنے کا شکریہ۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ ( بیرسٹر فروغ نسیم) کہہ رہے ہیں کہ صدر وزیر اعظم کی بات کا پابند ہے تو آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس مقبول باقر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کی کہ آرٹیکل 48 کی شق 1 کہتی ہے کہ اگر صدر مطمئن نہ ہو تو وہ کابینہ کو معاملہ واپس بھجوا سکتا ہے کہ ان سوالوں کا جواب اطمینان بخش دیں اور اگر پھر بھی جواب دیے بغیر معاملہ دوبارہ صدر کو بھیجا جائے تو وہ اپنا ذہن استعمال کر کے اپنی رائے کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گا کہ میں مطمئن نہیں ہوں، آپ دیکھ لیں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر خودمختار عہدہ ہے۔

اس کے بعد فل کورٹ نے آدھے گھنٹے کا وقفہ لیتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم کو آپشن دیا کہ آپ فون گھمائیں اور صدر اور وزیراعظم سے ہماری پیشکش پر مشاورت کر لیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے درخواست کی کہ وہ مشورہ کر کے کل صبح عدالت کو آگاہ کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے جواب دیا کہ پھر آپ وقفے کے بعد اپنے دلائل جاری رکھیں اور کل ہمیں حکومت کی ہدایت سے آگاہ کر دیجئے گا۔

دلچسپی کی بات ہے کہ جب کا کیس چل رہا ہے کمرہ عدالت میں دو نامعلوم شخصیات موجود ہوتی ہیں جو حکومتی ٹیم کے ساتھ نہیں آتیں اور علیحدہ سے آ کر الگ تھلگ بیٹھ جاتی ہیں۔ وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے۔ جیسے ہی عدالتی وقفہ ہوتا ہے وہ باہر بیٹھ کر صحافیوں کی طرح فوراً کیس کی اپ ڈیٹ کہیں بھجوا رہے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں اشخاص صحافی بھی نہیں ہیں اور وکیل بھی نہیں۔ آج دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب عدالتی وقفہ ہوا تو بیرسٹر فروغ نسیم نے وزیر اعظم ہاؤس یا ایوان صدر کو فل کورٹ کی پیشکش سے تو آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن ان دو اشخاص میں سے ایک کے ساتھ بیٹھ کر کافی دیر سرگوشیوں میں مشاورت کی۔

بریک کے بعد 11:38 پر دوبارہ فل کورٹ بیٹھی تو بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس اخلاق حیسن کیس کا حوالہ دیا کہ اس میں سپریم جوڈیشل کونسل نے دیکھا کہ غلط ٹیکس ڈکلریشن جمع کروایا گیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے جھوٹ یا غلط ڈکلریشن کا معاملہ نہیں ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پارلیمینٹرینز کو اہلخانہ کے نام اثاثون پر نااہل کیا جا چکا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ کیا آپ اس کیس میں نااہلی مانگ رہے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پانامہ پیپرز رٹ پیٹیش میں یہ اصول طے ہو چکا ہے کہ اگر اثاثے چھپائے گئے تو نااہلی ہوگی۔

جسٹس مقبول باقر نے مسکرا کر طنز کیا کہ آپ سارے اصول وہی لگانا چاہتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے اس موقع پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں کہ ڈسپلن کی کارروائی کس بنیاد پر ہوگی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر سرکاری ملازم جواب نہ دے تو ڈسپلن کی کارروائی ہوگی۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنا سوال دہرایا لیکن کس قانون کے تحت؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے پھر جواب دیا کہ اگر سرکاری ملازم ہے تو جواب دینا ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے جھنجلا کر جواب دیا اچھا رہنے دیں۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے نکتہ اٹھایا کہ جسٹس شوکت علی کیس میں الزامات بہت واضح تھے جو کوڈ آف کنڈکٹ کی شق چھ کے زمرے میں آتے تھے۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اگر جج کمپنی فیملی کے ذریعے چلا رہا ہوگا تو الزامات بہت واضح ہوں گے اور وہاں الزام تھا کہ جج کمپنیوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بے نامی کا کیس تب ہوگا اگر آپ کوئی ثبوت لائیں گے۔ اس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے بنچ کو اقوام متحدہ کے تحت بنگلوز کمیشن کی ججز اور عدلیہ سے متعلق دی گئی سفارشات پڑھ کر سنائیں جس کے تحت برطانیہ سمیت متعدد ممالک نے ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ بنایا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ یہ سفارشات کہتی ہیں کہ جج کا عدالت کے اندر اور باہر کنڈکٹ ایسا ہونا چاہیے جس سے اس پر عوامی اعتماد برقرار رہے۔



یہ بھی پڑھیے ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے؟ مواد غیرقانونی طور پر اکٹھا کیا گیا؟ ججز کے فروغ نسیم سے سوالات







اب جسٹس مقبول باقر کے ریمارکس پر جسٹس مقبول باقر اور بیرسٹر فروغ نسیم میں کافی گرما گرم بحث ہوئی۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ آپ اس پر کیا کہیں گے جو مہم جج کے خلاف چلائی گئی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج کے خلاف یا میرے خلاف یا میرے ساتھیوں کے خلاف کوئی بھی مہم چلائی گئی تو وہ قابل مذمت ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جذباتی ہو کر کہا کہ سر میرے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو الزام لگائے، بیرسٹر شہزاد اکبر کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ بہت تکلیف دہ تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ جج صاحب کی جائیدادیں ہیں اور یوں لگ رہا کٹہرے میں ہم کھڑے ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ سوچیے آپ کو ایسا محسوس ہوا تو جج صاحب کس کیفیت سے گزر رہے ہوں گے پچھلے 9 ماہ سے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ کوئی اور ہوتا تو اتنے الزامات اور کردار کشی پر گر جاتا لیکن یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ہمت ہے ابھی تک کھڑے ہیں۔ اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے اہم ریمارکس دیے کہ ملک بہت بڑے چیلنجز سے گزر رہا ہے، بڑی بڑی باتیں ہورہی ہیں اور ایسے میں ملک مزید افراتفری اور بحران نہیں برداشت کر سکتا۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے تلخی سے جواب دیا کہ سر سپریم کورٹ کا جج مجھے ٹاؤٹ لکھ رہا ہے، یہ بھی تو دیکھیں۔

جسٹس مقبول باقر نے موضوع بدلتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال کیا کہ اگر فرض کریں کسی سرکاری ملازم کی بیوی خود سے کرپشن کر کے کوئی جائیداد بناتی ہے جس سے سرکاری ملازم کا کوئی تعلق نہیں تو کیا ہوگا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میاں بیوی میں یہ فرق نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک اور فرضی صورتحال رکھی کہ بالفرض سپریم جوڈیشل کونسل جج کی بیوی کو طلب کرتی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ میں نے سلائی مشین چلا کر پیسے کمائے اور ایک دکان خرید لی تو کیا کہیں گے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وہ ایسا آ کر کہہ دیں کہ میں نے سلائی مشین چلائی اور یہاں سے پیسہ لندن لے گئی یا بالفرض لندن میں سلائی مشین چلائی اور پیسے کمائے۔

اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد سے نہ رہا گیا اور وہ انتہائی بلند اور گرجدار آواز میں بولے کہ وکیل صاحب ادھر دیکھیں۔ بس بہت ہو گئی۔ آپ ایک جج کے اہلخانہ کے بارے میں ایسے توہین آمیز اور گرے ہوئے فرضی منظر مت دلائل میں لائیں۔ جسٹس قاضی محمد امین احمد کا کہنا تھا کہ آپ کے سامنے واضح جائیدادیں ہیں اور قاضی فائز عیسیٰ کی ٹیم کا دفاع بھی موجود ہے۔ دلائل صرف وہیں تک محدود رکھیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے گھبرا کر جواب دیا کہ سر میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا۔

اس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کارپوریٹ کپمی لاز نکال لیے کہ اس میں بھی ڈائریکٹر اپنے اہلخانہ کے اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ کپمنی لاز کے ماہر جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ براہِ مہربانی ہمارے ساتھ ایسے مت کریں۔ یہ بات کمپنی لا کمپنی میں اہلخانہ کے شیئرز ظاہر کرنے کے لئے کہتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ جسٹس مقبول باقر کمپنی لاز کے ماہر ہیں۔ آپ بتائیں کارپوریٹ باڈی ایکٹ یہاں کیسے لاگو ہوا؟

بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ قانون کہتا ہے کہ بیوی بہت قریبی رشتہ ہوتا ہے، اس لئے بیوی کا سوال شوہر سے پوچھا جا سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ براہِ مہربانی ہمارے ساتھ دلائل میں اتنی زیادتی مت کریں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کمپنی لا کی شق پڑھتے ہوئے سوال پوچھا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ کمپنی ڈائریکٹر اپنی اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر کرنے کا پابند ہوگا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایسا صرف آپ کی تشریح ہے۔ کمپنی لا میں کہیں نہیں موجود۔



بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر یہاں بھی قریبی رشتہ کا اصول لاگو ہوگا۔ اس موقع پر سماعت اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگی تو فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کو پیشکش پر جواب لانے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کے پیشکش سے متفق ہونے کی صورت میں ہم منیر اے ملک ایڈووکیٹ سے رائے لیں گے۔ اگر وہ متفق ہوئے تو آرڈر دے کر کیس نمٹا دیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا مزید کہنا تھا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو کل آپ کو اپنے دلائل ختم کرنے ہوں گے اور کل آپ غیر قانونی طور پر معلومات اکٹھی کرنے، بدنیتی، جج کی جاسوسی اور جو مہم چلائی گئی اس پر دلائل دیں گے اور کل ہی اپنے دلائل ختم کریں گے جس کے بعد آپ کے ساتھی وکلا جمعرات کو روز اپنے دلائل ختم کریں گے اور جمعہ کو ہم منیر اے ملک سے دلائل لے لیں گے۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے منت بھرے لہجے میں استدعا کی کہ سر اگر میرے دلائل مکمل نہ ہوں تو مجھے جمعرات کے روز کا پہلا ہاف دے دیں۔ فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے دلائل رات تک سننے کو تیار ہیں، میرے ساتھی ججوں نے بہت مہربانی کی ہے۔ کوئی چھٹی پر گھر نہیں گیا۔ اس لئے ہر صورت یہ کیس اس ہفتے نمٹا دیں گے۔ اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ جب غیر قانونی طور پر معلومات جمع کرنے پر دلائل دیں تو ایسٹ ریکوری یونٹ کے کردار سے دلائل کا آغاز کریں تاکہ واقعات کے تسلسل سے پورا عمل سمجھ آ سکے۔ اس کے بعد کارروائی کل صبح 9:30 تک ملتوی کر دی گئی۔