جسٹس جاوید اقبال: جہاں بھی گئے، ہراسانی جیسی کئی داستانیں چھوڑ آئے

جسٹس جاوید اقبال: جہاں بھی گئے، ہراسانی جیسی کئی داستانیں چھوڑ آئے
یکم اگست 1946 کو کوئٹہ میں آنکھ کھولنے والے سابق جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی ایسی ایسی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں جنہوں نے اب سب کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ سب حیران ہیں کہ ایسی خصلتیں رکھنے والا شخص آخر اتنے بڑے بڑے عہدوں پر کیسے براجمان رہا اور ہے؟

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اپنے کریئر کے دوران اکثر تنازعات کا شکار رہے۔ ان کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے جنہوں نے فوجی آمر صدر پرویز مشرف کے پہلے پی سی او عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھایا۔

2018 میں محمد حنیف نے جناب جاوید اقبال کی شخصیت پر پوری ایک تحریر لکھی جو پڑھنے کے قابل ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ ''پرانے زمانوں میں ہر خاندان میں ہمیشہ ایک بزرگ ایسا ہوتا جو ہر کام کرنے کا ماہر ہوتا۔ شعر بھی کہہ لیتے، کشتہ بھی گھر پر تیار کر لیتے۔ علم الاعداد اور دست شناسی سے بھی شغف رکھتے حتیٰ کہ شادیوں پر کھانا پکانے والوں کی رہنمائی بھی کر دیتے تھے۔ ایسے بزرگ اب خال خال ہی نظر آتے ہیں لیکن بھلا ہو پاکستان کے ریٹائرڈ جنرلوں، ججوں اور بابوؤں کا جو پرانی روایتوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ایک عہدے سے ریٹائر ہوتے ہیں تو دوسرا پکڑ لیتے ہیں۔ دوسرے کی مدت پوری ہوتی ہے تو توسیع لے لیتے ہیں۔ کسی پیشگی تجربے یا کوالیفیکیشن کی بھی ضرورت نہیں، محکمہ کوئی بھی ہو چلے گا۔''

جسٹس ریٹائر جاوید اقبال بطور قائم مقام چیف جسٹس

مارچ 2007 میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد جاوید اقبال کو سپریم کورٹ کا قائم مقام چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ اور یہ فوراً تیار ہو گئے۔ انہوں نے برادر جج کے لئے کوئی اصولی مؤقف اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ البتہ جب 9 مارچ کو افتخار چوہدری کی پہلی پیشی پر وکلا کی جانب سے شدید ردِ عمل کا مظاہرہ ہوا اور اگلے چند روز حیرت انگیز طور پر بڑے بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے تو برادر ججز کو بھی کچھ دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے اور جسٹس جاوید اقبال اس عہدے سے علیحدہ ہو گئے کیونکہ جسٹس رانا بھگوان داس واپس آ چکے تھے اور پھر یہی اگلے چند ماہ سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس رہے۔

3 نومبر 2007 کو پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار کی پاداش میں انہیں 11 دیگر ججوں کے ساتھ سپریم کورٹ سے ہٹا دیا گیا تھا۔ تاہم، محض 8 دن بعد 11 نومبر کو انہوں نے اسی آمر سے پریس کونسل آف پاکستان کے سربراہ کا عہدہ تسلیم کر لیا۔

جسٹس جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کے اس بنچ کی بھی سربراہی کی جس نے پرویز مشرف کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق درخواستوں کے حوالے سے حکم دیتے ہوئے شرط لگائی تھی جب تک وہ اپنی وردی نہیں اتاریں گے، الیکشن کمیشن اس وقت تک انتخابات کا اعلان نہیں کرے گا۔ یاد رہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق سرکاری افسر ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔

ایبٹ آباد کمیشن

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال ایبٹ آباد کمیشن کے بھی سربراہ رہے۔ اس کمیشن کا قیام القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ایک امریکی آپریشن کے ذریعے ان کی ہلاکت کے محرکات کو دنیا کے سامنے لانا مقصود تھا لیکن اس کی رپورٹ کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ جاوید اقبال نے ایک بار خود کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں تھا یا نہیں؟ اگر بتا دیا تو پیچھے کیا رہ جائے گا؟ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانا حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم نے کسی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا۔

مسنگ پرسنز کمیشن

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال 2011 سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بنائے گئے کمیشن کی سربراہی کر رہے ہیں۔ 2016 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی لاپتہ افراد کی حالت ایسی ہی ہے جیسے پاکستان کی۔ ایک اور بیان میں جسٹس صاحب نے عجیب منطق بیان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کو ہماری نہیں بلکہ دشمن ملک کی ایجنسیوں نے اٹھایا ہے۔ ویسے بھی ان میں سے لگ بھگ 80 فیصد تو دہشتگردی میں ملوث ہیں۔

Defence of Human Rights Pakistan کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے لئے کام کر رہی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جیو نیوز پر حامد میر کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک پشتون خاتون جن کا شوہر عرصہ سے لاپتہ ہے، جسٹس جاوید اقبال کے پاس گئیں تو انہوں نے اس خاتون کو کہا کہ تم تو اتنی خوبصورت ہو، تمہیں شوہر کی کیا ضرورت ہے؟

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے جاوید اقبال کے کردار پر کئی سوالات اٹھاتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کو ہی ختم کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ خیال رہے کہ جسٹس جاوید اقبال لاپتہ افراد کے اس کمیشن کے 11 سال سے چیئرمین ہیں۔

طیبہ گل کے الزامات

کچھ عرصہ قبل جاوید اقبال کی آٰڈیو اور ویڈیو منظر عام پر لانے والی خاتون طیبہ گل نے 7 جولائی 2022 کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر ایسے ایسے انکشافات کیے جسے سن کر تمام ارکان پریشان ہو گئے۔ طیبہ گل نے بتایا کہ جاوید اقبال نے ان کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ناصرف ٹیلی فون کالز کر کے بارہا ہراساں کیا بلکہ اکیلے اپنے فلیٹ میں آنے کی ضد کرتے رہے۔ میں نے انکار کیا تو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کروا دیا۔ شاہزیب خانزادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں برہنہ کر کے ان کی ویڈیوز بنائی گئیں اور ان کے شوہر کو دکھا کر دونوں کو بلیک میل کیا گیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی ان ویڈیوز کو حاصل کر کے کارروائی کی یقین دہانی کروائی لیکن الٹا انہیں چیئرمین نیب کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ 2020 میں جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کو نیب نے گرفتار کیا تو طیبہ گل اور ان کے شوہر کو وزیر اعظم ہاؤس میں بلایا گیا اور انہیں 45 دن تک حبسِ بے جا میں رکھا گیا۔ بقول ان کے حکومت کو ڈر تھا کہ میں جنگ گروپ سے رابطے میں ہوں اور میرے پاس جاوید اقبال کے خلاف جو مزید ثبوت موجود تھے، انہیں جیو نیوز کے حوالے کر سکتی ہوں لہٰذا مجھے وزیر اعظم ہاؤس میں 45 دن قید رکھا گیا اور کہا جاتا رہا کہ آپ کی جان کو نیب سے خطرہ ہے، اس لئے آپ کی حفاظت کے لئے آپ کو یہاں رکھا جا رہا ہے۔

جاوید اقبال بحیثیت چیئرمین نیب

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو 2017 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے چیئرمین نیب مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے شاہد خاقان عباسی پر ہی کیس بنا کر انہیں بھی گرفتار کروایا اور خورشید شاہ کو بھی۔

جاوید اقبال نے عمران خان کے دور حکومت میں اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف متعدد کیس بنائے لیکن پی ٹی آئی کے خلاف ہیلی کاپٹر اور مالم جبہ جیسے اہم مقدمات کو بند کر دیا۔ پشاور بی آر ٹی کیس بھی کئی سالوں سے نیب کی فائلوں میں بند پڑا ہے۔ اس سے ان کی جانبداری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مئی 2019 میں جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملاقات کا احوال لکھا تھا۔ جاوید چودھری کے اس سوال پر کہ آپ حکومت کے خلاف کیسز کو فائلوں میں بند کیوں کیے بیٹھے ہیں، جاوید اقبال نے جواب دیا تھا کہ وہ کیسز کھولے تو حکومت گر جائے گی۔ گویا یہ حکومت بچانا ان کی ذمہ داری ہو۔

سابق چیئرمین نیب کے دور میں شہاز شریف، حمزہ شہباز، آصف علی زرداری، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق سمیت کئی رہنمائوں کو جیلوں میں بھیجا گیا لیکن ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔ ویڈیوز سکینڈل، نیب کی حراست میں ملزمان کی موت اور خودکشی کے واقعات اور متنازع کیس بنانے پر سیاسی جماعتیں ان کو چیئرمین نیب کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کرتی رہیں لیکن ان کی کہیں شنوائی نہیں ہوئی۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے مبینہ طور پر نیب کے دباؤ کی وجہ سے خود کشی کر لی تھی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کی موت کے ٹھیک تین سال بعد انہیں نیب کیسز سے باعزت بری کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ اپنے متعدد فیصلوں اور ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ نیب کو سیاسی انجینیئرنگ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سابق ڈی جی ایف آئی اے مطیع اللہ جان کو اپنے انٹرویو میں بتا چکے ہیں کہ عمران خان نے انہیں تمام اپوزیشن لیڈران پر مقدمات بنانے کے لئے کہا اور انکار پر عہدے کے آخری دنوں میں جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا۔ ان کے مطابق یہ کیسز قانون کے مطابق بنتے نہیں تھے لیکن بعد ازاں نیب نے یہ تمام کیسز بنائے اور اس کے بدلے میں عمران خان نے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے چند ہی روز قبل ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں نئے چیئرمین کی تعیناتی تک توسیع کر دی۔