کرونا وائرس اور پاکستانی عوام کا رد عمل

کرونا وائرس اور پاکستانی عوام کا رد عمل







کرونا وائرس ایک ایسی بیماری ہے جس کی شروعات چین سے ہوئی اور کہا گیا کہ اس بیماری کی وجہ چینیوں کی مخصوص خوراک ہے اور یہ انہیں تک محدود ایک بیماری ہے۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے اس بیماری نے دنيا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ ایک ،دو،سو اور پھر ہزاروں افراد اس بیماری سے متاثر ہونے لگے۔ دنيا میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کیوں کے اس بیماری میں مرنے کے  امکانات بھی ہیں اس لیے ہر انسان کو فوری طور پر بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور اس کے لیے بہترین ہسپتالوں اور طبی عملے کی ضرورت پڑتی ہے۔


جو کہ ہر ملک کے لیے اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اس وائرس کا پہلا مریض 26 فروری کو ہسپتال میں لایا گیا جس کا تعلق کراچی سے تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کیسز کی تعداد بڑھنے لگی۔ کیسز کی بڑھتی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے 16مارچ سے ملک میں تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا جس کو تعلیمی اداروں نے فوری عمل کر کے کامیاب بنایا۔اس کے ساتھ ہی ملک میں جزوی طور پر لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا  جس پر عوام نے شروع میں تو قدر بہتر طریقے سے عمل درآمد کیا مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے کیسز میں مسلسل تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے مگر عوام مکمل طور پر غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہی ہے۔ ایک طرف جہاں طبی عملہ بھرپور طریقے سے اپنا فرض نبھا رہا ہے اور عوام کو گھروں میں رہنے کی تلقین کر کے خود دن رات کام کر رہا ہے وہیں پاکستان کے آدھے عوام کا خیال ہے کہ ایسی کوئی بیماری پاکستان میں نہیں ہے اور یہ صرف انہیں ڈرانے کے لیے ایک پروپیگنڈا ہے۔


  اسی غلط فہمی کا شکار پاکستانیوں نے ایک طر ف عید کا تہوار بھر پور طریقے سے منایا جبکہ دوسری جانب  مجبوری کے تحت گھروں سے نکلے والے افراد کے لیے مسائل بڑھ گئے۔ کیوں کہ پاکستانی عوام  سمجھتے ہیں کہ جب تک ہر انسان اس بیماری کا شکار نہیں ہو گا تب تک یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں اس قوم کو دوسروں کی غلطی سے سیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ یہ قوم خود غلطی کر کے اس کا خمیازہ خود بھگت کر بھی اکثر کوئی سبق حاصل نہيں کر پاتی۔ مگر  جہاں ملک کی 70 فیصد آبادی یا  تو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی وبا ہے بھی سہی اور اگر یقین ہے بھی تو گھروں میں رہنے کے لیے تیار نہیں تو دوسری طرف اس لاک ڈاؤن کے نتیجے میں 30فیصد آبادی دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں اگر مکمل لاک ڈاؤن لگا تو اس ملک میں خود کشی سے مرنے والوں کی تعداد کرونا سے کہیں ذیادہ ہو گی اور پاکستانی معشیت جو پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے اس سطح پر پہنچ جائے گی جہاں سے دوبارہ سنبھلنے میں دہائیاں لگیں گی اور پھر یہ قوم حکومت سے گلے شکوہ کرے گی۔ مگر کیا جب آج حکومت اور پاکستان کو اس قوم کی قربانی کی ضرورت ہے تو یہ تیار ہیں ؟ اگر یہ قوم کرونا سے لڑنے کے بجائے ڈر کر گھر بیٹھ جائے تو شاید حالات بہتر ہو جائیں اور مزید مسائل نہ بڑھیں  کیوں کہ جو بیماری امریکہ جیسے ملک کی بنیادیں ہلا سکتی  ہے اس کے لیے پاکستان جیسے ملک کو 50 سال پیچھے دھکیلنے میں ٹائم نہیں لگے گا۔اسلئے اس وقت پوری قوم کو اپنے ملک کی حفاظت کے لیے فوج اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا ۔اپنے گھروں میں رہنا ہو گا تاکہ یہ چلتی پھرتی بیماری دوسرے لوگوں میں کم سے کم منتقل ہو اور ایک دفعہ پھر لوگ پہلے کی طرح کاروبار اور تعلیم حاصل کر سکیں۔