جب سے پاکستان میں کرونا نے سر اٹھایا ہے تب سے ہی گھر میں محصور ہوں۔ بازار جانے کا ابھی تک اتفاق نہیں ہوا تھا لیکن گذشتہ روز اپنے کزن کے ساتھ ایک کام کے سلسلے میں بازار جانا پڑا۔ سڑک پر عام دنوں کی طرح کافی زیادہ رش دیکھا تو میں نے اپنے کزن سے کہا کہ ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی وبا ہی نہ ہو۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں بالکل ایسا ہی لگ رہا ہے۔
بازار کی ہر دوسری دکان کھلی ہوئی تھی۔ پھر اچانک پولیس کا قافلہ (جن کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے) دیکھنے کو ملا، جو شائد بازار میں گشت کر رہا تھا۔ دکانوں کے مالکان نے پولیس کو دیکھتے ہی دکانوں کے شٹرز کو بند کر کے باہر سے تالے لگا دیے۔ تحصیل میونسپل کمیٹی (ٹی ایم اے) تک پہنچے تو اس کے گیٹ کے سامنے جراثیم کش سپرے والا سسٹم تھا۔ یہ سسٹم لوگوں کے گزرنے کے لیے لگایا گیا تھا لیکن کوئی بھی اس میں سے نہیں گزر رہا تھا۔
خیر میں نے اور میرے کزن نے اس جراثیم کش دروازے سے گزرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس دروازے میں داخل ہوئے تو آگے پیچھے دائیں بائیں حتی کہ اوپر نیچے کی طرف بھی دیکھا لیکن کہیں سے جراثیم کش دوا کا چھڑکاؤ نہ ہوا۔ وہ سسٹم صرف تابوت تھا اور کچھ بھی نہیں۔ اس وقت دل میں سوچا کہ ''دل دل پاکستان'' کہو اور ''جان جان پاکستان'' بھی کہو۔