وزیر اعظم اپنا ہی بیان بھول کر کرونا کو فلو سمجھنے کی ذمہ داری عوام پر ڈال گئے

وزیر اعظم اپنا ہی بیان بھول کر کرونا کو فلو سمجھنے کی ذمہ داری عوام پر ڈال گئے
پاکستان میں اس وقت کرونا وائرس بھیانک شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہاں مصدقہ کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے زائد جب کہ اموات 2000 سے زائد ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال میں ملک میں بحث چھڑی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم کے ذومعنی بیانات اور لاک ڈاؤن نہ کرنے کا ہٹ دھرم بیانیہ ملک کو انسانی جانوں سے اس غیر سنجیدگی کی قیمت چکانے پر مجبور کر رہا ہے۔ جب کہ حکومتی بیانیے کے مطابق لاک ڈاؤن سے غریب متاثر ہوتے ہیں اور وزیر اعظم کے ہی بیان کے مطابق اب لاک ڈاؤن کوئی آپشن نہیں ہے۔ جب کہ متعدد میڈیا رپورٹس میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے کبھی بھی سنجیدہ اور سخت لاک ڈاؤن کیا ہی نہیں گیا جس کے باعث آج کرونا وائرس ملک میں بے قابو ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم کی اس حوالے سے غیر سنجیدگی اور اپنے سر سے ذمہ داری اتار کر عوام پر ڈالنے کی جلدی کا یہ عالم ہے کہ اپنی ہی کہی ہوئی باتیں بھول جاتے ہیں۔ اب سے دو ماہ قبل خود انہوں نے ہی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو کرونا وائرس ہو جاتا ہے تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، یہ ایک فلو کی طرح ہوتا ہے، کچھ دنوں بعد آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن اپنے ہی الفاظ کی مکمل نفی کرتے ہوئے پیر کی دوپہر قوم سے ایک اور خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگ اس وائرس کو سنجیدہ ہی نہیں لے رہے، ہم انہیں جتنا بھی سمجھا رہے ہیں، انہیں لگتا ہے یہ ایک فلو ہے بس، اور اس لئے وہ SOP پر عمل نہیں کرتے۔

وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کرنے سے پاکستان کرونا وائرس کی کمر نہیں توڑ سکتا تھا، بلکہ اس کے پھیلنے کی صرف رفتار سست ہو جانی تھی۔ اس کا جواب حال ہی میں کرونا وائرس سے پاک قرار دیے جانے والے ملک نیوزی لینڈ کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کے مطابق اس وقت نیوزی لینڈ میں کرونا وائرس کا کوئی بھی مریض نہیں ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ نے اس وائرس کو مکمل شکست دے دی ہے یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ اس وائرس کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا۔

نیوزی لینڈ کے عالمی وبا کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کرنے کے پیچھے عوامل کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نیوزی لینڈ نے وبا کے آغاز سے ہی مکمل لاک ڈاؤن کر دیا اور اپنی سرحدیں 19 مارچ کو ہی بند کر دی تھیں۔ یہ اقدامات ایک ایسے وقت پر اٹھائے گئے جب نیوزی لینڈ میں مصدقہ متاثرین کی تعداد 30 سے بھی کم تھی۔ 7 دن بعد اس لاک ڈاؤن میں مزید سختی کر دی گئی اور شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ دیا گیا۔ سخت لاک ڈاؤن کے پانچ ہفتوں کے بعد ’ٹیک اوے‘ فوڈ شاپس اور کچھ دیگر کاروبار کھول دیے گئے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپریل کے اختتام تک کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد صفر ہو گئی، جس کے بعد نیوزی لینڈ مزید پابندیاں ہٹانے کے قابل ہو گیا۔ اگرچہ بظاہر لگتا ہے کہ یہ وائرس اب نیوزی لینڈ سے ختم ہو گیا ہے لیکن نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جاسنڈا آرڈرن نے خبردار کیا ہے کہ طویل عرصے کے لئے ملک کی سرحدیں بند رہیں گی۔

ایسے میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت پاکستان اگر بروقت لاک ڈاؤن کر لیتی تو آج معاشی سرگرمیاں بلا خوف و خطر جاری ہوتیں اور پاکستان شاید معاشی لحاظ سے دنیا میں بہتر کارکردگی دکھا رہا ہوتا۔ لیکن اس کے لئے بھی عمران خان مسلسل لیت و لعل سے کام لیتے رہے اور 23 مارچ کو ڈی جی آئی ایس پی آر کو خود لاک ڈاؤن کا فیصلہ سنانا پڑا۔ اس وقت تک ملک میں کرونا کیسز کی تعداد 800 سے تجاوز کر چکی تھی۔ اور پھر چند ہی روز بعد وزیر اعظم نے اس کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے، اسے اشرافیہ کا فیصلہ قرار دیا، اور پھر لاک ڈاؤن کھولنے پر مصر ہو گئے۔ اس وقت ملک میں کیسز کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھ چکی ہے تو نوید سنا رہے ہیں کہ peak تو جولائی اور اگست میں جا کر آئے گی۔

ذمہ داری سے فرار اور اپنی بات پر قائم نہ رہنا اس حکومت کے ٹریڈ مارک رہے ہیں لیکن اس عالمی وبا سے پیدا ہونے والی انسانی زندگی کے لئے خوفناک صورتحال کو دیکھتے ہوئے امید کی جا رہی تھی کہ کم از کم اس سلسلے میں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، حالات عوام کے سامنے ہیں۔ تمام سننے والوں سے گذارش ہے کہ احتیاطی تدابیر خود ہی اختیار کریں، ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھیں، ماسک کا اہتمام کریں۔ حکومت اپنے ہاتھ کھڑے کر چکی ہے۔