Get Alerts

کسی معاشرے کے زوال پذیر ہونے میں انصاف کی عدم دستیابی اور عوام کا احتجاج اہم پہلو ہے

کسی معاشرے کے زوال پذیر ہونے میں انصاف کی عدم دستیابی اور عوام کا احتجاج اہم پہلو ہے
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دنیا بھر کی مختلف نسلوں اور رنگوں کے لوگ بستے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ یہ مختلف رنگوں اور قومیتوں کے لوگ مل کر ایک مضبوط قوم تشکیل دیتے ہیں تو بےجا نہ ہو گا۔ پچھلے دنوں جارج فلائیڈ نامی سیاہ فام افریقی امریکی شخص کی امریکی پولیس کے چار متعصب، گورے، نسل پرست اور جلاد صفت افراد کے ہاتھوں خلاف قانون موت واقع ہوئی، جس کی موت کو دیکھنے والی عوام نے ویڈیو بنا کر اسی وقت سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔

اس کے بعد امریکی عوام بشمول کالے، گورے، براؤن غرض ہر رنگ و نسل کے افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا اور کچھ ابھی تک مظاہروں میں مصروف ہیں۔ اب اگر اس واقعہ کی تاریخ دیکھی جائے تو ایسا واقعہ بدقسمتی سے پہلی بار وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ پہلے بھی ایسے واقعات گائے بگاہے رونما ہوتے رہے ہیں مگر ان کو کسی نے بھی زیادہ سنجیدہ نہیں لیا مگر وہ کہتے ہیں کہ جب برداشت کی حد ختم ہو جائے تو پھر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

اب آجائیں اصل واقعہ کی طرف تو ہوا کچھ یوں کہ افریقن امریکن سیاہ فام جارج فلائیڈ ایک دوکان میں جا کر خریداری کرنے کے بعد کاؤنٹر پر 20 ڈالر کا نوٹ دیتا ہے جو کہ دوکاندار چیک کرتا ہے تو جعلی نکلتا ہے۔ اب یہاں بھی میری ذاتی رائے میں زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ جارج کو اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ اس کا نوٹ جعلی ہے کیوں کہ اس کو بھی یہ نوٹ کسی سے ملا ہو گا۔ بہرحال نوٹ کے جعلی نکلنے پر پولیس کو بلایا جاتا ہے جو کہ بدقسمتی سے متعصب، نسل پرست افراد پر مشتمل ٹیم ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک پولیس افسر جارج کو ہتھکڑی لگانے کے بعد باہر سڑک پر لاتا ہے اور نیچے گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ دیتا ہے۔ جارج مسلسل چلاتا ہے کہ، مجھے سانس نہیں آ رہا، مجھے سانس نہیں آ رہا، مگر وہ نسل پرست متعصب افسر اس کے سانس کو روکے رکھتا ہے اور اس دوران اس کے تین ساتھی ساتھ کھڑے ہو کر اس کو روکنے کی بجائے مسلسل تماشہ دیکھتے ہیں۔ جب عوام پاس سے ان کی بربریت دیکھ کر رکنے کا کہتی ہے تو ان میں سے کوئی بھی نہیں سنتا اور اسی دوران قتل کی یہ ویڈیو قتل کا منظر دیکھنے والے بنا کر وائرل کر دیتے ہیں۔

یہ نسلی تعصب کا پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی ایسے واقعات وقوع پزیر ہو چکے ہیں مگر ان میں سے کسی میں ثبوت کی کمی تھی اور کسی میں عوام الناس کے اجتماعی اتفاق کی۔ مگر اس دفعہ کالے، براؤن، انصاف پسند گورے اور دیگر رنگ و نسل کے افراد اس بربریت اور نسلی تعصب کے خلاف مجموعی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے مگر ہمیشہ کی طرح امریکی صدر صاحب نے پہلے تو اس واقعہ اور احتجاج کو سنجیدہ نہیں لیا اور ریاست منی سوٹا نے بھی صرف ایک افسر کو ہی گرفتار کیا وہ بھی تیسرے درجہ کے قتل کے الزام میں، مگر جب احتجاج کا دائرہ پورے امریکہ اور پوری دنیا میں پھیل گیا اور پوسٹمارٹم رپورٹ بھی اس متعصب اور ظالم شخص کے خلاف آ گئی تو پھر عوامی دباؤ پر اس پر دوسرے درجہ کے قتل کی دفعات لگائی گئیں اور جرم میں اعانت کی دفعات شریک ملزمان بلکہ مجرمان پر بھی لگائی گئیں۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انصاف لینے کے لیے احتجاج ضروری ہوتا ہے؟

میرے خیال میں تو کسی بھی جمہوری اور انصاف پسند معاشرے میں انصاف خود بن مانگے ملنا چاہیے ورنہ دوہرے معیار ہوں گے، اور کالے، گورے یا مسلم،غیر مسلم وغیرہ کا فرق اگر روا رکھا جائے گا تو جلد یا بدیر ہر جگہ وہی حالات ہونے کا خدشہ ہے، جو اس وقت بالخصوص امریکہ اور بالعموم چند دوسرے ملکوں میں پیدا ہو چکے ہیں۔

اب اس کے بعد آ جاتے ہیں احتجاج کرنے والوں کی طرف اور اس ظلم کے حل کی طرف۔ میری ناقص رائے کے مطابق سب سے پہلے تو انصاف لینے کے لیے احتجاج کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے۔ کیونکہ اگر نظام انصاف پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے تو اس ملک کو زوال کا شکار ہونے سے کوئی دنیاوی طاقت نہیں روک سکتی۔ اگر احتجاج شروع کر ہی دیا ہے تو سب سے پہلے تو احتجاج کرنے والوں کو مکمل طور پر پرامن احتجاج کرنا چاہیے، اور خود میں شامل شرپسند عناصر کو پکڑ کر قانون کے حوالے کرنا چاہیے کیونکہ اپنے گھر کو جلانا اور اپنوں کو لوٹنا تو جاہلوں، اور ملک دشمن عناصر کا کام ہے نہ کہ پرامن شہریوں اور انصاف مانگنے والوں کا۔

اس کے بعد موجودہ وبائی حالات کے پیش نظر احتجاج کرنے والی عوام کو بھی چاہیے کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے، ماسک استعمال کرتے ہوئے تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، بصورت دیگر وہ خود کرونا کو لے سکتے ہیں یا اس کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پوری دنیا میں حکمرانوں کو چاہیے کہ امتیازی قوانین اگر کہیں موجود ہیں تو ان کا خاتمہ کریں۔ امریکہ میں پولیس کی اصلاحات کا بل پاس ہونا چاہیے، جس میں ان کو حد سے زیادہ دی گئی طاقت اور بلاوجہ جس پر مرضی گولی یا تشدد کرنے کو بھی کنٹرول ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس میں بھرتی کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر پوسٹوں پر ہائی سکول پاس والوں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے جبکہ اس کے لیے کم ازکم تعلیم بیچلرز ہونی چاہیے اور نفسیاتی، علمی امتحانات بشمول ڈاکٹر کی نفسیاتی معائنے کی رپورٹ بھی شامل ہونی چاہیے۔

پولیس اور عوام کا اعتماد بحال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیوں کہ موجودہ حالات میں عوام عمومی طور پر پولیس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ اعتماد مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام، پولیس سے خوف کھانے کی بجائے ان کو اپنا دوست محسوس کریں گے۔ پولیس کو خود بھی اپنے محکمہ میں موجود نسل پرست، متعصب کالی بھیڑوں کی نشاندہی کرتے رہنا چاہیے۔ بصورت دیگر اگر حق مانگنے کے لیے عوام نے ہر دفعہ سڑکوں پر نکلنا شروع کر دیا تو یہ معاشرے کے زوال پزیر ہونے کی نشانی ہے۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔