عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تب بھی سیاسی جغادریوں نے مذاق بنایا اور طنز کی تھی کہ یہ پارٹی نہیں چلے گی۔ انتخابی مہم کے دوران بھی یہی کہا جاتا رہا ہے کہ اقتدار عمران خان سے بہت دور ہے۔وزیر اعظم بن گئے تو کہا گیا کہ جو لیکر آئے ہیں۔ جلدی چلتا کریں گے۔ تین سال گزر گئے ہیں ۔حسب روایت اپوزیشن نے حکومت کے خاتمہ کےلئے تحریک چلائی اور ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔
عمران خان نے بیرونی قرضوں میں اضافہ کیا،مہنگائی اورغربت میں تیزی آئی ہے۔ انتخابی وعدے پورے نہیں کر سکے ہیں۔یہ باتیں تو حکومت کے پہلے سال سے حلقہ یاراں کرنے لگے تھے۔مگر جو بنیادی بات ہے۔ اس پر بات ہوئی ہے اور نہ ہی مناسب طریقے سے لکھا گیا ہے۔
شہر اقتدار میں برجمان ہونے والے بہت آئے اور گئے ہیں۔ ہم پرویز مشرف کی آمریت کے بعد عوامی جمہوری اور انتخابی ادوارسے بات کرلیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا اور پھر نواز شریف آئےتھے۔1990 سے یہی دو جماعتیں اقتدار میں آتی رہی ہیں ۔دس سال ملک و قوم کےپرویز مشرف بھی ضائع کر چکے ہیں۔اگر ان مذکورہ تینوں حکمرانوں سے عمران خان کا موازانہ کیاجائے تو کئی حقیقتیں کھل کر سامنے آتی ہیں کہ حکمران پاکستان کے وسائل کو کس طرح انجوائے کرتے ہیں۔
عمران خان عوامی توقعات کے مطابق ڈلیور نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی کر سکتے ہیں۔جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔اہم ترین اور پہلی وجہ کہ عمران خان انقلابی لیڈر نہیں ہیں ۔دوسری اہم وجہ عمران خان کی سیاسی جماعت تحریک انصاف تعمیر کے مراحل عبور کیے بغیر مروجہ روایتی طریقوں سے اقتدار تک پہنچی ہے۔ تحریک انصاف میں اکثریت دوسری پارٹیوں سے توڑے ہوئے لوگ ہیں۔ایسی سیاسی جماعتوں کی واحد منزل اقتدار ہی ہوتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ لیڈر شپ کا ہوتا ہے۔یہ بات بھی واضح ہے کہ لیڈر شپ میں سوائے عمران خان کے دوسرا کوئی نہیں ہے۔قیادت کے اعتبار سے موجودہ عہد میں عمران خان تمام قیادت سے ممتاز ہیں۔
نوازشریف سے لیکر فضل رحمٰن تک جتنے بھی لیڈر ہیں بشمول مریم نواز اور بلاول کے عمران خان کے ذاتی اوصاف بطور وزیراعظم ،پارٹی سربراہ اور قومی لیڈر کے تمام تر سے اعلیٰ اور دیانتدارانہ ہیں۔ حب الوطنی ،عوام دوستی اور ملکی مفاد کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کے متبادل کوئی بھی لیڈر نہیں ہے۔اس وقت لیڈرشپ کا فقدان اور بحران ہے۔یہ عمران خان ہی کر سکتا تھا کہ مشکل ترین حالات اور اقتدارکی بے شمار مجبوریوں کے باوجود عمران خان کئی غیرمقبول فیصلے کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ دوسروں جیسے لیڈر ہرگز نہیں ہیں۔ذاتی نوعیت کی بطور وزیراعظم عمران خان کی عیاشیاں سب کے سامنے ہیں۔اقرباء پروری ،رشوت ،کمیشن خوری سمیت ہر بدعنوانی پر پتا چلنے پر عمران خان نے ایکشن لیا ہے۔جہانگیر ترین اور زلفی بخاری تازہ ترین مثالیں ہیں۔
تحریک انصاف کے اندر مایوسی نے جنم لیا ہے۔ عمران خان نے سرکاری فنڈز کی خرد برد اور بندربانٹ نہیں کی اور نہ ہونے دی ہے۔سرکار کے بل بوتے پر رسہ گیری ،تھانہ کچہری اور سرکاری دفاتر میں پی ٹی آئی کے کارندوں کومار دھاڑ کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دی گئی ہے۔ جس پر پی ٹی آئی کے وابستگان بھی نالاں ہیں کہ ایسی حکومت کا انہیں کیا فائدہ ہے کہ تھانے میں بند کوئی بندہ بھی نہ چھڑا یا جا سکے۔
عمران خان یہ درست کہتے ہیں کہ لیڈر صرف انتخابات کے لئے منصوبہ بندی نہیں کرتا ہے۔حقیقی لیڈر نسلوں کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرتا ہے۔یہ بات کہنے میں باق نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان ہیں کہ اگلی نسلوں کےلئے سوچتے ہیں اور منصوبہ بندی کررہے ہیں۔حقیقی لیڈر کے اوصاف یہی ہوتے ہیں۔