وطن عزیز کے مجودہ سیاسی منظرنامے نے ایک بات تو واضح کر دی ہے کہ اس ملک میں وہی کامیاب ہے جس کا ڈومیسائل مضبوط ہے جو کمزور ڈومی سائل والے ہیں انکی کوئی اوقات نہیں ہے۔ وہ بے چارے اس شعر کی عملی تصویر ہیں کہ اگر آہ بھی بھریں تو بدنامی ان کا مقدر ہے اور جن کے ڈومی سائل مضبوط ہیں وہ قتل عام بھی کر دیں تو اس کا چرچا نہیں ہو گا۔
یہ ایک خوفناک خلیج ہے جو ریاست کی دوغلی سوچ کے باعث رونما ہو چکی ہے، اپنی اس دلیل کو موثر بنانے کے لیے چند مثالیں پیش کرتا ہوں ،پانامہ پیرز کے منظر عام پر آنے کے بعد جب نواز شریف کو عدالتی کارروائی کے بعد اقتدار سے فارغ کیا گیا اور 2018 کے الیکشن میں ان کی سیاسی جماعت کو شکست ہوئی تو نون لیگ نے تواتر سے عسکری قیادت کے خلاف تقریریں شروع کر دیں اور جنرل قمر جاوید باوجوہ کا جلسوں میں نام لے لے کر دشنام طرازی کی گئی۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے ہیت مقتدرہ نے نون لیگ کے آگے سرخ لکیر کھنچ دی ہے مگر مبینہ طور آپریشن رجیم چنج کے بعد آج وہی سیاسی جماعت نون لیگ جو جنرل قمر جاوید باوجوہ جنرل پاشا اور جنرل ظہیر الاسلام کے دشنام طرازی کرتی تھی اس کو اقتدار دے دیا گیا اور مبینہ طور پر سولہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس کا ملزم شہباز شریف وزیراعظم بن گیا۔
لاھور ہائیکورٹ کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن قتل عام میں ملوث رانا ثناء اللہ وزیر داخلہ بن گیا۔ جی ہاں یہ وہی رانا ثناء اللہ ہے جس نے پنجاب اسمبلی میں کھڑے ہو کر جنرل پرویز مشرف کی ذاتی زندگی پر دشنام طرازی کی تھی اور پھر خفیہ اداروں نے جو اس کا حال کیا تھا وہ بھی سب کے سامنے ہے مگر آج وہ تحریک انصاف کے کارکنوں پر جو تشدد کرتا ہے تو ادارے خاموش رہتے ہیں۔
خواجہ آصف قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر آپکی جنگی تاریخ کے پول کھولتا ہے مگر آپ اس کو وزیر دفاع بنانے کے بعد سٹاف کالج کوئٹہ میں خوش آمدید کہتے ہیں ،یہ آپکی حسن نظر ہے۔ آپ ان مظبوط ڈومی سائل والوں کے ساتھ جو مرضی کریں۔
اب ذرا کمزور ڈومیسائل والوں کا تذکرہ ہو جائے۔ ہماری قومی اسمبلی میں دو احباب ہیں جن کے نام ہیں محسن داوڑ اور علی وزیر۔ بایاں بازو کی سیاسی سوچ سے تعلق رکھنے والے ان کا سب سے بڑا جرم ہے کہ وہ کمزور ڈومی سائل والے ہیں اور ان کا حلقہ انتخاب پسماندہ علاقے سے ہے۔
ایک فوجی آپریشن کے بعد جب پشتون تحفظ مومنٹ وجود میں آئی تو وہ عسکری قیادت کے خلاف شعلہ بیان تقریریں کر کے اپنے علاقوں میں مشہور ہوے بعد ازاں انکے دو اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ منتخب ہوئے۔ دونوں لاتعداد مرتبہ گرفتار ہوئے علی وزیر تو اب بھی جیل میں ہے جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی بلاول بھٹو زرداری جو اب وزیر خارجہ ہیں انہوں نے بہت کوشش کی محسن داوڑ کو بھی وفاقی وزیر بنا دیا جائے مگر مضبوط ڈومی سائل والے شریف برادران جن کی ہیت مقتدرہ سے ڈیل کامیاب ہوئی تھی اور اقتدار میں آگئے تھے انہوں محسن داوڑ کو اب تک وزیر نہیں بنایا۔
ریاست ماں جیسی ہوتی وہ اپنے جفرافیہ کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کرتی مگر ہماری ریاست کا یہ وطیرہ بن چکا ہے علی وزیر اور محسن داوڑ چونکہ ریاست کے سوتیلے بیٹے ہیں لہذا ان کمزور ڈومی سال والوں کو شرف قبولیت نہیں ملی ،جیسا کہ سطور بالا میں لکھا ہے کہ ہماری ہیت مقتدرہ کے یہ امتیازی سلوک والے فیصلے ایک خونی خلیج کا باعث بن رہے ہیں مگر ہماری ریاست کبوتر کی آنکھیں بند کر کے سقوط ڈھاکہ والی غلطی پھر سے دوہرا رہی ہے۔
حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔