صحافی شاہد میتلا نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دبائو سے نکل چکی ہے۔ اگر پی ٹی آئی چیئرمین لانگ مارچ نہ کرتے تو شاید ان کو الیکشن کرانے کا کہہ دیا جاتا لیکن اب جلد انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں بتایا کہ یہ بات خود ان کو تحریک انصاف کے ایک انتہائی سرکردہ اور اہم رہنما نے بتائی ہے۔ شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی ڈی سیٹ ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کو مناسب امیدوار ہی نہیں ملے۔
شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنما نے خود بتایا کہ ڈی سیٹ ہونے والے تو سارے ن لیگ میں جا چکے ہیں۔ ہمارے پاس کسی مناسب امیدوار کی درخواست تک نہیں آئی۔ بہتر تو یہی تھا کہ ہم ان انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتے۔ تاہم اب فیس سیونگ کیلئے کم ازکم 13 سیٹوں پر کامیابی ناگزیر ہے۔ تاہم یہ ہمارے لئے اب ایک مشکل ٹاسک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے پریشر سے نکل آئی ہے۔ اگر لانگ مارچ نہ ہوتا تو شاید الیکشن مل جاتا۔ اس لئے اب الیکشن ہوتے اب ہمیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبشلمنٹ کی جانب سے بارہا یہ بات کی جا چکی ہے کہ اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کچھ ہفتے قبل نگران وزیراعظم کیلئے کچھ شخصیات کو بلایا گیا تھا۔ اس میں شوکت ترین، رضا باقر، عبدالحفیظ شیخ اور مفتاح اسماعیل نے بھی شرکت کی تھی۔
شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ وہاں ہر ایک بندے نے آرمی چیف کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر آرمی چیف نے مفتاح اسماعیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ شوکت ترین کا شمار معیشت کی اچھی سمجھ بوجھ رکھنے والے ماہرین میں ہوتا ہے۔ دوحہ میں منعقد ہونے والے آئی ایم ایف مذاکرات میں شرکت کیلئے آپ ان کو ساتھ لے کر جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تاہم اس پر مفتاح اسماعیل نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ بعد ازاں انہوں نے اس بات کا اپنی لیڈرشپ سے بھی تذکرہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے درست فیصلہ کیا۔