Get Alerts

اگر میں اپنے والدین کی چھٹی بیٹی ہوتی؟

اگر میں اپنے والدین کی چھٹی بیٹی ہوتی؟
میں ایک بھائی اور تین بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا چوتھا بچہ تھا۔مزید دو بہنیں میرے بعد پیدا ہوئیں۔ میرے والد کی شدید خواہش تھی کہ تین مسلسل بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کی ولادت ہو۔ میری تھکی ہوئی ماں بھی مزید کسی لڑکی کا چہرہ دیکھنے کی متحمل نہ تھی۔ میرے بڑے بھائی کی بہارِ ولادت کے بعد وہ متواتر تین خزانوں سے پژمردہ تھی۔ اس بار وہ کچھ زیادہ ہی مضطرب تھی۔ اس لئے بیٹے کی امید میں دعاؤں کے ساتھ انھوں نے ایک ٹوٹکا بھی آزمایا۔ دردِ زہ کی تکلیف شروع ہوتے ہی انھوں نے میری ہمشیرہ مرحومہ حمیدہ بانو سے کہا کہ اس دفعہ اپنے محلے کی بجائے ساتھ والے محلے کی دائی گل آرزو کو لے کر آنا ہے۔ شاید دائی کے بدلنے سے قسمت بدل جائے۔ اور یوں گل آرزو بی بی نیک شگون ثابت ہوئی اور میں پیدا ہوا۔ اس دن کے بعد میری ماں نے میری بڑی بہن کو بھی خوش بخت قرار دیا کیوں کہ گل آرزو کو وہ لے کر آئی تھی۔ چوں کہ نومولود بچے یہ جاننے سے قاصر رہتے ہیں کہ ان کے آنے سے ان کے لانے والے کتنے خوش، پریشان یا خفا ہیں، اس لئے میں نرینہ اولاد کی پیدائش پر اپنے والدین کی خوشیوں اور مسرتوں کا اندازہ ان مواقع سے لگا سکتا ہوں جب میرے بھتیجوں کی پیدائش ہوئی۔ میرے والد نے اپنے تمام پوتوں کے ناموں کا انتخاب ان کی پیدائش سے پہلے کیا تھا۔ اور اہل بیت کے پیار میں ہر ایک کے نام کے ساتھ حسن کا لاحقہ لگایا ۔ ناموں کے معنوں اور اہمیت پر یقین رکھنے کی عادت میں نے اپنے والد سے مستعار لی ۔ میرے والد روح الامین اپنے نام کا تعارف بھی ہمیشہ علامہ اقبال کے اس شعر سے کیا کرتے تھے؎

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

میرے والد کا نام روح الامین ہے اور وہ ایک عالم دین تھے۔ اس لئے انھوں نے میرا نام ضیاء الدین رکھا۔ میرا غالب گمان ہے کہ یہ نام رکھتے وقت ان کے تصور میں ابوالکلام آزاد سے لے کر شبیر احمد عثمانی جیسے جیّد علمائے کرام کی تصویریں گھوم رہی تھیں۔ ان کی گرجدار آواز آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے۔ وہ اٹھتے، بیٹھتے، چلتے پھرتے، وضو کرتے اور نماز کے بعد بھی میرے لئے ہمیشہ ایک ہی دعا مانگتے تھے کہ ضیاء الدین خدا تمھیں علم و حکمت کے آسمان پر درخشندہ سورج کردے۔ اگرچہ میں ایک دیا بھی نہ بن پایا، پر روشنیوں سے پیار ہوگیا۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر حمیدہ بانو، نجمہ بی بی، بخت محل، بی بی رعنا اور نسیم اختر کے بعد میں اپنے والدین کی زندگیوں میں ایک چھٹی بیٹی کا اضافہ ہوتا تو میں بھی کوئی شمع، آرزو، کرن، خوشبو، نورجہاں اور کائنات ہوتی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ اُس وقت کائنات میں میری کیا وقعت اور کیا حیثیت ہوتی۔ میں سوچتا ہوں کہ ان تمام خوب صورت ناموں سے موسوم ہونے کے باوجود میری پیدائش کا دن افسردگی کا دن ہوتا۔ میری پیدائش کا سال غم کا سال ہوتا۔ میری پیدائش پر محلے کی کوئی خاتون میری ماں کو مبارک باد دینے نہ آتی اور مسجد میں کوئی بھی میرے والد کو ’’مبارک شہ‘‘ نہ کہتا۔ میں لڑکی ہوتی تو صبح ناشتے کے ساتھ مجھے بھینسوں کے دودھ کی گاڑھی ملائی نہ ملتی۔ میرے ہاتھ میں قلم نہ تھمایا جاتا اور میری بغل میں کتابیں نہ ہوتیں۔ میرے گاؤں میں میرے لئے ریاست کی طرف سے کوئی اسکول نہ ہوتا اور معاشرے کی طرف سے بیوی، ماں اور دادی اماں بننے کے علاوہ میری کوئی منزل نہ ہوتی۔ اور میرے لئے میرے والدین کا ایک ہی خواب ہوتا کہ جتنی جلدی ہو اور جہاں ہو میری شادی کرا دی جائے۔

شادی کا سوچ کر میں اور بھی خوف زدہ ہوجاتی کہ اس کالی موٹی ناک والی ہکلاہٹ زدہ لڑکی سے کون شادی کرتا۔ شاید مجھے بوجھ سمجھ کر شادی کے نام پر کفالت کے لئے کسی بوڑھے رنڈوے کی تحویل میں دیا جاتا۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ میرے والد کے میرے لئے کتنے بڑے خواب تھے۔ اپنے اس ایک بیٹے سے وہ کیا کیا نہیں بنانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر، عالم دین، فوجی افسر اور بہت کچھ۔۔

میری والدہ شاروجان مجھے ہمارے علاقے کے ان غریب افراد کی کہانیاں سناتی تھیں جن کی غربت تعلیم نے مٹائی تھی اور جن کی قسمت تعلیم نے بدل ڈالی تھی لیکن میری پانچ بہنیں اپنی تمام تر صحت مندی اور صلاحیتوں کے باوجود اُس توجہ اور ان تمام سہولیات اور مواقع سے محروم تھیں جو مجھے والدین، معاشرے اور ریاست نے مل کر اس لئے دی تھیں کہ میں ایک پدرسری سماج کا ’’نر‘‘ فرد تھا۔ بس میری جنس ممتاز تھی یا بس میری جنس نے مجھے ممتاز کیا تھا۔

جب میں مرد پیدا ہونے کی لامتناہی مراعات، فوائد اور مواقع کو دیکھتا ہوں اور اس کے مقابلے میں ایک عورت پیدا ہونے کی پاداش میں اس کی محرومیوں، پابندیوں اور تنگیوں کا سوچتا ہوں تو اس مخمصے میں پڑ جاتا ہوں کہ اپنے مرد ہونے کو خدا کی رحمت سمجھ کر شکر ادا کروں اور یا جنسی امتیاز پر قائم غیرمساویانہ پدرسری نظام پر لعنت بھیجوں۔ چوں کہ مجھے مرد ہونے پر قطعاً کوئی فخر نہیں، اس لئے صنفی امتیاز کی مذمت کرتا ہوں۔  کیوں کہ میرا ایمان ہے کہ صنفی امتیاز پر قائم معاشرتی ڈھانچہ ایک غیر فطری نظام پر استوار ہے۔ پرند، چرند اور دوسری ذی روح (species) کے نر اور مادہ میں کوئی برتر یا کم تر نہیں ہوتا۔ میں آج دنیا بھر  کے اپنے ہم جنس اور خصوصاً پدرسری معاشروں کے مردوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھ سمیت آج ہم جو کچھ  بھی ہیں، ہم سب صنفی امتیاز پر قائم پدرشاہانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے اندر کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے اور ہم کسی حوالے اور کسی بھی  لحاظ سے بھی عورتوں سے برتر نہیں ہیں۔

آپ کو یقین نہ آئے تو بس ایک بار صرف اتنا فرض کیجئے کہ اگر آپ آرزومند خان کی بجائے آرزو ہوتی تو شاید آپ کی کوئی آرزو پوری نہ ہوتی۔ اگر آپ آفتاب کی بجائے شمع ہوتی تو جل جل کر اپنی قسمت پہ روتی۔ اور اگر آپ نور خان کی بجائے نور جہان ہوتی تو آپ کی روشنی سماج کی تاریکیاں کب کی نگل چکی ہوتیں۔ کیوں کہ پدرشاہانہ معاشروں میں بہت سی خواتین ایسے ہی مرجاتی ہیں جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں۔

 اس لئے میرے ہم نفسو! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک نوعِ انسانی سے ہوتے ہوئے بھی محض جنس کی بنیاد پر ہم نے ایک ایسا غیر مساویانہ معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام قائم کیا ہے جو کلچر، روایات، اقدار اور مذہب کے نام پر عورت کا استحصال کرتا ہے۔ ایک ایسا سماج جو غیرفطری ہونے کی وجہ سے جمود کا شکار ہے۔ حیاتیاتی لحاظ سے ایک جنیاتی فرق کیوں کر اتنی بڑی تفریق کی وجہ بنتا ہے کہ عورت اپنے نام سے جانے اور پہچانے جانے کے حق سے محروم ہو۔ تعلیم، روزگار اور کاروبار کے حق سے محروم ہو۔ میراث میں حصے سے محروم ہو۔  نقل و حرکت کی آزادی سے محروم ہو، اپنی صلاحیتوں کو ابھارنے کے مواقع سے محروم ہو اور اپنی کمیونٹی کی معاشی اور سیاسی سرگرمیوں میں کردار ادا کرنے سے محروم ہو۔

اب صدیوں سے جاری ان تمام محرومیوں کے خلاف دنیابھر کی عورتیں اٹھ چکی ہیں۔ ان کی توانا اور بلند آوازیں ہر سو گونج رہی ہیں۔ ہمارے پاس بھی موقع ہے کہ ان کی حمایت میں آواز اٹھائیں۔ ان کی قیادت میں صف بستہ ہوجائیں۔ عورتیں خود مختار ہوں گی تو ہم نفسیاتی لحاظ سے آسودہ اور ذہنی لحاظ سے آزاد ہوجائیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم صدیوں کے ظلم کا کفارہ ادا کریں۔ عورتوں کا ساتھ دیں اور یا کم از کم ان کے راستے سے ہٹ جائیں۔ یاد رکھیں یہ صنفی مساوات اور عورتوں کی آزادی کی صدی ہے۔ عورتوں کا عالمی دن آپ سب کو مبارک ہو۔ شکریہ

ضیاء الدین یوسفزئی ایک سماجی کارکن ہیں اور نوبل ایوارڈیافتہ ملالہ یوسفزئی کے والد ہیں۔