Get Alerts

مظاہر نقوی کے نام کے ساتھ 'جسٹس' نہ لکھا جائے؛ سپریم جوڈیشل کونسل

سپریم جوڈیشل کونسل نے قرار دیا کہ مظاہر نقوی کے خلاف تمام الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور ذاتی فائدے اٹھانے میں ملوث قرار پائے۔ مظاہر نقوی نے علم ہونے کے باوجود چوہدری شہباز کے دیوانی کیس میں بچوں کو وراثت کے حق سے محروم کیا۔

مظاہر نقوی کے نام کے ساتھ 'جسٹس' نہ لکھا جائے؛ سپریم جوڈیشل کونسل

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دینے کے معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے کے مزید مندرجات سامنےآ گئے ہیں۔ رائے میں قرار دیا گیا ہے کہ مظاہر نقوی پر کرپشن کے الزامات ثابت ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ رائے بھی دی ہے کہ مظاہر نقوی کے نام کے ساتھ جسٹس یا جج کا لفظ بھی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیے جانے کے معاملے پر 33 صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے جاری کر دی گئی۔ تفصیلی رائے چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے تحریری رائے میں کہا ہے کہ مظاہرعلی اکبر نقوی پر مجموعی طور پر 5 الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ مظاہر نقوی کی جانب سے کوڈ آف کنڈکٹ کی متعدد مرتبہ خلاف ورزیوں کے باعث عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی۔ مظاہر نقوی کے نام کے ساتھ جسٹس یا جج کا لفظ بھی استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے عدلیہ کے احتساب اور قانون کی حکمرانی کیلئے پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل، چاروں صوبائی بار کونسلز اور ایڈووکیٹ میاں دادؤ کی تعریف کی اور کونسل کی بھرپور معاونت کرنے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان کے کردار کو بھی سراہا۔

کونسل نے قرار دیا کہ مظاہر نقوی کے خلاف تمام الزامات ثابت ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ وہ ذاتی فائدے اٹھانے میں ملوث قرار پائے۔ مظاہر نقوی نے علم ہونے کے باوجود چوہدری شہباز کے دیوانی کیس میں بچوں کو وراثت کے حق سے محروم کیا۔ مظاہر نقوی وصول شدہ تحائف کی وضاحت بھی نہیں دے سکے۔

کونسل نے کہا کہ ایک گواہ زاہد رفیق نے بیان دیا کہ انہوں نے مظاہر نقوی کی بیٹی کو 5 ہزار برطانوی پاؤنڈ بھجوائے۔ مظاہر نقوی پر آٹھواں الزام یہ تھا کہ جائیدادیں بنانے کیلئے ان کے پاس اتنے وسائل کہاں سے آئے۔ کونسل کے مطابق ہم ایف بی آر یا ٹیکس حکام کا کام اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے لیکن ہم یہ بھی طے نہیں کر رہے کہ مظاہر نقوی کی آمدن اور اخراجات مساوی ہیں یا نہیں، ہم نے صرف لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

کونسل نے رائے میں مزید کہا کہ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا مظاہر علی اکبر نقوی کے دل میں لالچ نہیں تھا۔ اپنے عہدے کی مدت کے دوران مظاہر علی نقوی قابل رسائی بھی تھے۔ جسٹس نقوی کے اقدامات سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ ذاتی مفاد کی طرف مائل تھے۔

کونسل نے رائے دی کہ مظاہر نقوی نے بطور جج سپریم کورٹ حلف لینے کے بعد 2 سال میں 3 جائیدادیں اسلام آباد میں جبکہ ایک جائیداد راولپنڈی میں بنائی۔ مظاہر نقوی نے یہ جائیدادیں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے خریدیں۔ مظاہر نقوی نے وضاحت نہیں کی کہ یہ جائیدادیں کیسے بنائی گئیں۔

کونسل نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے دوران 14 گواہان پیش ہوئے۔ مظاہر نقوی اگر کونسل کا ریکارڈ حاصل کرنا چاہتے تو اس کیلئے درخواست دے سکتے تھے مگر مظاہر نقوی نے ریکارڈ کے حصول کیلئے ایک بھی درخواست نہیں جمع کرائی۔

واضح رہے کہ 2020 میں سپریم کورٹ کے جج کا عہدہ سنبھالنے والے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا نام ایک مبینہ آڈیو لیک میں سامنے آنے کے بعد ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں پاکستان بار کونسل سمیت دیگر فریقین کی جانب سے مس کنڈکٹ کے الزام پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے لائرز فورم کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر ججوں کے ضابطہ اخلاق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا تھا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل میاں داؤد نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم اور ایک تاجر زاہد رفیق سے 'مالی فائدہ' حاصل کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔ جسٹس نقوی پی ٹی آئی اور اس کے قائد عمران خان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کھلے عام ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کے خلاف خطرناک ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

اس کے بعد قومی اسمبلی نے آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات پر جسٹس مظاہر علی نقوی کا کیس پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ میں شکایات جمع ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے اس وقت کے سربراہ اور سابق چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے جسٹس سردار طارق مسعود سے ان شکایات سے متعلق رائے طلب کی تھی۔

یاد رہے کہ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اس سے قبل سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے نام خط میں اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی مہم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے خلاف غیر سنجیدہ شکایات درج کی گئی ہیں جو عدلیہ کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم کا حصہ ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج نے لکھا تھا کہ الزام لگایا گیا ہے کہ میری جائیدادیں ریونیو ریکارڈ اور انکم ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کی گئی قیمت کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا کی عدالتیں صدیوں سے اس بنیادی اصول پر کام کر رہی ہیں کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا بھی نظر آنا چاہیے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے معاملے میں انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

گذشتہ روز یہ بھی خبر آئی تھی کہ سابق جج سپریم کورٹ مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔