تحریر کے آغاز میں ہی اعلان کرتا چلوں کہ میں لکھاری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انصافین بھی ہوں، سو مجھے تنقید برائے تنقید کا کوئی شوق نہیں۔ میں ان دائمی جراثیموں سے پاک ہوں اور اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں جو Positive Criticism کا داعی ہے۔ معلوم نہیں ہمارے عوام الٹا سیدھا کیسے سوچ لیتے ہیں؟ مثبت سوچنے کا تو ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ہے۔ مثبت سوچنا کتنا آسان ہے اور اس کے کیا کیا فائدے ہیں؟ میری یہ تحریر پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ کسی بھی Motivational Speaker کی طرح میرا یہ دعویٰ نہیں کہ یہ کالم آپ کی زندگیاں بدل کر رکھ دے گا مگر آپ کو مثبت سوچنے کی Motivation ضرور دے گا۔
حکومت وقت نے پیٹرول کی قیمتوں میں آٹھ روپے اضافے کیا کر لیا، عوام نے تو سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے۔ پیٹرول 108 روپے لیٹر ہونے پر شور ایسے مچا رہے ہیں جیسے رمضان میں روزہ ’’پیٹرول‘‘ سے ہی افطار کرنا ہو۔ ایک لمحے کے لئے یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ چند اشخاص کو روزہ پیٹرول سے افطار کرنا پسند ہے تو کم از کم ایک لیٹر پیٹرول ایک کلو ’’کھجور‘‘ سے تو سستا ہی ہے۔
مہنگے پیٹرول کے فائدے گنوانے سے پہلے مجھے تنقید کرنے والوں سے ایک شکوہ ہے۔ مطلب بے رحمی، خود غرضی اور منافقت کی انتہا نہیں ہو گئی۔ آپ خود 130 روپے لیٹر کا دودھ پی سکتے ہیں مگر اپنی گاڑی اور موٹر بائیک کو صرف 108 روپے فی لیٹر میں دستیاب پیٹرول نہیں پلا سکتے۔
سمجھ دار اور پڑھے لکھے لوگوں کا وطیرہ ہی یہ رہا ہے کہ خریداری کرتے وقت کوئی بھی شے خریدیں تو اس کی کوالٹی دیکھ کر خریدا جائے۔ کوالٹی جانچنے کا سب سے پرانا اور آزمودہ نسخہ ایک ہی ہے اور وہ ہے چیز کی قیمت۔ یہ اصول روزمرہ اشیاء سے لے کر الیکڑانک اور گھر کی چھت میں پڑنے والے سریے تک پر لاگو ہوتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے اگر ایک کپڑا دو سو روپے فی میٹر ہے اور ایک 150 روپے فی میٹر تو آپ اچھے والا یعنی دو سو روپے میٹر والا کپڑا ہی خریدیں گے تاکہ اچھا سوٹ بن سکے۔
حکومت اگر اب پیٹرول کی قیمت بڑھا رہی ہے تو یقین رکھیں وہ عوام کو پیٹرول بھی بڑھیا کوالٹی کا ہی دے گی جس میں پانی نہ ہونے کے برابر ہو گا اور Mileage بھی اچھی ہوگی۔ ہم پاکستانی درحقیقت Made in China کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں ہر چیز چائنہ کی بنی ہوئی چاہئے۔ ہو سکتا ہے آنے والے برسوں میں چائنہ پیٹرول بھی بنا دے اور وہ 30 روپے فی لیٹر ہو مگر اس میں گاڑی کے انجن کی کارکردگی اور سپیڈ کی کوئی گارنٹی نہیں ہو گی.
پیٹرول مہنگا کرنے کا سب سے اہم مقصد ایسے وزیروں کو مصروف کرنا ہے جو 9 ماہ تک وزارت میں رہنے کے باوجود خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ فواد چودھری اب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔ میرے قائد خان اعظم نے سوچا کہ پیٹرول مہنگا کر کے ایک مسئلہ کھڑا کیا جائے جس کا حل سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت پیش کرے گی یعنی فواد چوہدری صاحب اب ایسی گاڑی کا انجن دریافت و ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے جو ایندھن و پیٹرول کے بغیر چل سکے۔
دنیا کی تمام ایجادات کسی نہ کسی مسئلے کے مرہون منت ہی ہوئی ہیں. چاہے وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنے کا مسئلہ ہو یا دو آدمیوں کے درمیان رابطے کا مسئلہ۔ پہیے سے لیکر ٹیلی فون تک کی ایجاد میں یہی ایک ’’مسئلہ‘‘ پوشیدہ ہے۔ اگر چودھری صاحب ایسا انجن بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم اسے باہر کی دنیا میں بیچ کر بے پناہ زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔
پیٹرول مہنگا کرنے کا ایک مقصد حکومت کا عوام کی صحت کی جانب توجہ مبذول کرنا بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ کو سائیکل چلانے سے کون منع کرتا ہے؟ ایک زمانے میں ہمارے صدر جنرل ضیاالحق بھی سائیکل چلا کر عوام کو اسے چلانے کی تلقین کرتے رہے ہیں مگر عوام نے بات آئی گئی کر دی۔ اسی لیے اب یہ طے پایا ہے کہ ایمر جنسی بنیادوں پر ٹھوس حکمت عملی اپنائی جائے۔
سائیکل کے استعمال کے فائدے بڑے بوڑھوں سے معلوم کریں۔ ایک تو بندے کو شوگر چھو کر نہیں گزرتی، نہ ہی دل کے عارضے لاحق ہوتے ہیں، توند بھی اپنی اوقات میں رہتی ہے اور بندہ دن بھر آفس میں خود کو چاق و چوبند محسوس کرتا ہے۔
کہتے ہیں لکھنے والا سب سے کام کی بات آخر میں لکھتا ہے تاکہ اس کی تحریر آخری سطر تک پڑھی جائے۔ مہنگے پیٹرول کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جب آپ سائیکل کا استعمال کرنا شروع کریں گے تو بازار سے جا کر خریدیں گے۔
اور جب زیادہ لوگ سائیکل خریدنے لگیں گے تو سائیکل کی ڈیمانڈ بڑھ جائے گی۔ پھر حکومت سائیکل بنانے کے لیے شہر شہر میں کارخانے لگائے گی جس کے باعث روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور نوجوانوں کو ایک کروڑ نوکریاں انہی سائیکلوں کے کارخانوں میں دی جائیں گی، چنانچہ 108 روپے فی لیٹر پیٹرول جہاں اس حکومت کو عروج فراہم کرے گا وہاں سائیکل کلچر کو بھی فروغ حاصل ہو گا۔
کیا ہوا جو میرے وزیر اعظم سائیکل پر نہیں جاتے، میرے وطن کا ہر شہری تو دفتر اپنی اپنی سائیکل پر ہی جائے گا۔