کرونا وائرس جب سے آیا ہے دنیا کے کسی نہ کسی کونے سے اس کے بارے میں کسی تحقیق کے نتائج کی گونج سنائی دیتی ہے۔ روز اس وائرس کا ایک نیا تعارف انسانوں کو ملتا ہے۔ اب ایک اہم معاملہ زیر بحث ہے کہ آیا کرونا وائرس پانی میں زندہ رہ کر اسکے ذریعیئے انسانوں میں منتقل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس بحث کا آغاز اس پیش رفت کے بعد ہوا جس میں بتایا گیا کہ کرونا وائرس انسان کے جسم سے نکلنے والی پانی کے قطروں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن اس کا اب تک کا خلاصہ یہ ہے کہ ابھی تک حتمی طور پر کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک اس کا علاج بھی کسی کو نہیں معلوم۔
تاہم اس ضمن میں یہ سوال بار ہا پوچھا گیا ہے کہ اگر کوئی کرونا وائرس سے متاثرہ شخص پانی کے قریب بیٹھ کر کھانستا یا چھینکتا ہے تو کیا اس کے جسم سے خارج ہونے والے قطرے پانی میں گر کر اسے وائرس آلود کر دیں گے؟ اور اگر ہاں تو وائرس کتنی دیر تک پانی میں موجود رہے گا؟
تاہم اب تک کی معلومات کی بنا پر ماہرین نے کہا کہ کرونا وائرس کے پانی سے پھیلنے کے خدشات بہت کم ہیں۔ بی بی سی کی مطابق عالمی ادارہ صحت نے مارچ میں کرونا وائرس سے متعلق جاری کی گئی اپنی ایک دستاویز میں کہا تھا کہ اس وقت تک ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ کرونا وائرس پینے کے پانی اور گٹر میں ’زندہ‘ رہ سکتا ہے۔ ادارے کے مطابق کرونا وائرس کی ٹرانسمیشن کے دو ہی مرکزی راستے ہیں، سانس کے ذریعے اور چھونے کے ذریعے۔ سانس سے آنے والے قطرے اس وقت بنتے ہیں جب کوئی متاثرہ شخص کھانستا یا چھینکتا ہے۔
یہ قطرے کسی ایسی سطح پر بھی گر سکتے ہیں جہاں وائرس زندہ رہ سکتا ہے، اسی لیے کسی بھی متاثرہ شخص کے ارد گرد کا ماحول وائرس کی منتقلی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔