تین روز قبل بروز 5 نومبر کو حیدرآباد کے ایک ہال میں شعبہ صحافت، جامعہ سندھ کے آخری سال کے طلبہ نے ایک الوداعی تقریب منعقد کی، جس میں کسی بھی قسم کا کوئی بھی انتظامی یا سرکاری تعاون نہیں تھا۔ اس تقریب میں جامعہ سندھ کے شعبہ صحافت کا بھی کوئی اخلاقی اور معاشی تعاون نہیں تھا۔ باقی یہ بات الگ ہے کہ طلبہ نے 4 سال جن اساتذہ کے ساتھ گزارے، ان کی دعوت لازم تھی۔
لیکن، ہوا کچھ یوں کہ کچھ نجی سندھی اور اردو ٹی وی چینلز نے اس ذاتی تقریب کو بھی عوامی بنا دیا۔ وہ بھی عجیب و غریب رخ دے کر۔ شاید یہ سب کچھ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پبلیسٹی سٹنٹ تھا۔ بتایا یہ جا رہا تھا کہ یہ پارٹی الودائی نہیں تھی بلکہ ڈانس پارٹی تھی اور اس میں فلمی گانوں پر ڈانس کیا جا رہا تھا وغیرہ وغیرہ۔
کتنے افسوس کی بات ہے۔ ہمارا معاشرہ اتنا تنگ نظر ہو گیا ہے؟ ایک الوادعی پارٹی تھی، جس میں اگر یونیورسٹی کے کچھ طلبہ نے ڈانس کر لیا، تو اس میں غلط کیا ہے؟ یہ کوئی ڈانس پارٹی نہیں تھی، جسے ڈانس پارٹی کا رنگ دے دیا گیا ہے۔ کتنے افسوس اور دُکھ کی بات ہے، صحافیوں کا کام یہ تو نہیں ہے۔
اب جب تقریب ہی آخری سال کے طلبہ کی ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ سب کچھ خوشگوار یادیں بنا کر گزاریں گے۔ پر شاید یہ بات ہضم نہ ہوئی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ چند سال قبل بلکل ایسی ہی نوعیت کی تقریب حیدرآباد میں ہی منعقد کی گئی تھی، تب بھی اسی طرح کے گانے تھے، اسی طرح کی ڈانس اور اسی طرح کا ماحول تھا، پر اس وقت تو اس خبر کو ایسا رخ نہیں دیا گیا، تو اب اس نجی الودائی تقریب کو ایسا رخ کیوں دیا جا رہا ہے؟
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ چند سال قبل منعقد ہونے والی جس تقریب کی میں بات کر رہا ہوں، وہ تقریب کسی اور نے نہیں بلکہ اسی صحافی تو نہیں کہوں گا بندے نے منعقد کی تھی جب وہ اپنی جماعت کا سی آر تھا۔ جی ہاں، میں ۔۔۔ کی ہی بات کر رہا ہوں۔
بات رپورٹ اچھی بری کی نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ڈانس کو مغربی کلچر قرار دینا، فیئر ویل پارٹی کو ڈانس پارٹی قرار دینا، سراسر ناانصافی ہے۔ اتنا تنگ نظر ہمیں نہیں بننا چاہیے، دل بڑے رکھنے چاہیے۔
ایک زمانے میں کسی شہر کے اخبار میں رپورٹ ہوا کہ فلاں لڑکی فلاں کے ساتھ پکڑی گئی۔ بیٹی کے گھر پہنچنے سے پہلے باپ نے خودکشی کر لی۔ ذاتی زندگی کا معاملہ خبر نہیں خواہش ہوتا ہے۔
مجھے حیرت تو اس بات کی ہے کہ یہ خبر ماس کمیونیکیشن کے ایک سابقہ طالب علم نے چلائی ہے۔ ویسے تو ہر صحافی اور ادارے کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ صحافتی اور عوامی مفاد کو اپنی سب سے پہلی ترجیح دے۔ تنقید ضرور ہو مگر مثبت، جس سے مسائل کو اصلاح کا موقع ملے اور عوام کو آگہی حاصل ہو۔
میڈیا ایک ایسا طاقتور ہتھیار ہے جو عوام کی رائے ڈھالنے کا کام سرانجام دیتا ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم ابھی تک ڈانس، ہراسمنٹ اور بیان بازی سے آگے ہی نہیں نکلے۔
ہر کسی کو اپنی زندگی اپنے انداز سے جینے کا حق ہے۔ آپ کسی کی ذاتی زندگی کی ویڈیو ٹی وی پر چلا کر ان کی زندگی سے کھیل چکے ہیں۔ اس کے خوفناک نتائج بھی نکل سکتے ہیں، اللہ نہ کرے لڑکی نے کچھ غلط کر لیا، تو ہم لوگ خود سے بھی معافی مانگنے کے قابل نہیں رہیں گے، اصل مسئلہ یہ ہے۔
مجھے اس صحافی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ بس ایک لمحے کے لیے سارے معاملے کو سمجھ کر، اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ایمانداری سے بتائے کہ اس نے خبر کے ساتھ انصاف کیا یا نہیں؟ کچھ دیر کے لیے ویڈیو میں موجود طلبہ کی جگہ خود کو رکھ کے دیکھے اور پھر تصور کرے، بھائی ایسا نہیں ہوتا ہے۔
دکھ ہوتا ہے جب صحافی دوست خبروں کو ایسا رخ دے دیتے ہیں۔