حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیاں امن مذاکرات میں کیا شرائط شامل ہیں؟

حکومت پاکستان اور تحریک طالبان کے درمیاں امن مذاکرات میں کیا شرائط شامل ہیں؟
گذشتہ ماہ وزیراعظم عمران خان نے ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان میں شامل کچھ گروپوں سے بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔

اُنھوں نے کہا تھا کہ یہ بات چیت افغان طالبان کے تعاون سے افغانستان میں ہو رہی ہے تاہم وہ اس بات چیت کی کامیابی کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت پاکستان اور افغانستان میں پاکستانی طالبان کے درمیان مذاکرات میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور اسلام آباد نے پہلے مرحلے میں 102 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا ہے جس کے بدلے میں ٹی ٹی پی سیز فائر کا اعلان کرے گی۔

رپورٹس کے مطابق ان قیدیوں کو یکم نومبر کو رہا کیا جانا تھا لیکن چند تکنیکی وجوہات کے سبب اس میں تاخیر ہوئی اور پھر 4 نومبر کو رہائی کا فیصلہ ہوا تاہم ناگزیر وجوہات کے سبب ایک بار پھر ایسا نا ہوسکا۔ ان قیدیوں میں محمود خان، مسلم خان اور مولوی عمر سمیت دیگر نام شامل ہیں۔

گزشتہ روز پشاور میں مقیم تحقیقاتی صحافی افتخار فردوس نے اس مبینہ معاہدے کی تفصیلات اپنے ٹویٹر ہینڈل پر پوسٹ کیں۔ افتخار فردوس کے ٹویٹر پر جاری کردہ تھریڈ کے مطابق پاکستان حکام اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان تین میٹنگز ہوئیں۔ پہلی میٹنگ اور دوسری میٹنگ کابل میں بدستور دو اور چوبیس گھنٹے جاری رہی جبکہ تیسری بار پاکستان حکام اور طالبان حکام افغانستان کے صوبے خوست میں ملے۔

افتخار فردوس کے مطابق طالبان کے وفد میں چودہ لوگ شامل تھے جن کی سربراہی تحریک کے امیر مفتی نور ولی محسود کر رہے تھے جبکہ وفد کے دیگر ارکان میں ٹی ٹی پی مہمند کے عمر خالد خراسانی، ٹی ٹی پی باجوڑ کے مولوی فقیر محمد، ٹی ٹی پی سوات کے ڈاکٹر حماد، طارق گیدڑ گروپ کے مفتی غفران سمیت دیگر اراکین شامل تھے۔

افتخار فردوس کے مطابق تحریک طالبان نے کئی مطالبے سامنے رکھے جن میں ان کے اسیر قیدیوں کی رہائی خصوصی طور پر مسلم خان اور محمود خان کی رہائی شامل ہے۔ ٹویٹر پر افتخار فردوس کی جانب سے جاری کئے گئے تھریڈ کے مطابق اس بات پر بہت مفصل بحث ہوئی کہ امن معاہدے کے تحت اسلحہ واپس رکھنے والوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

تھریڈ کے مطابق پاکستانی حکام نے ٹی ٹی پی وفد کو بتایا کہ وہ مسلح راستہ ترک کرنے کے بعد اس چیز کی یقین دہانی دینگے کہ وہ دوبارہ سے منظم نہیں ہونگے۔ پاکستانی حکام نے طالبان کو بتایا کہ جو لوگ غیر مسلح ہو جائیں تو ان کو رجسٹرڈ کیا جائے گا۔

تاہم ان مذاکرات سے باخبر حساس ادارے کے ایک سینئر افسر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالبان کے مطالبے پر نہ صرف ان قیدیوں کو رہا کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف کسی عدالتوں میں مقدمات بھی درج نہیں ہونگے۔

حساس ادارے کے افسر کے مطابق طالبان نے یہ مطالبہ بھی سامنے رکھا ہے کہ حکومت نے قبائلی اضلاع سمیت سوات میں جتنے جنگجو کے گھر مسمار کئے ہیں ان کی مد میں معاوضہ دیا جائے جس پر بھی کچھ حد تک حامی بھر لی گئی ہے۔ ان کے مطابق مسلم خان اور محمود خان سمیت دیگر قیدیوں کو اسی ہفتے رہا کیا جائے گا لیکن کچھ قانونی عمل ہے ان کو مکمل کرکے ان کی رہائی ہوگی۔

ان کے مطابق طالبان نے جو دوسرا مطالبہ سامنے رکھا ہے اس میں جو طالبان جنگجو واپس پاکستان آئینگے تو ان کو کوئی نوکری یا روزگار سے نوازا جائے گا یا پھر ان کو ماہانہ بنیادوں پر مالی امداد دی جائے گی تاکہ وہ اپنی زندگی دوبارہ سے شروع کریں۔ ان کے مطابق مجھے مزید نہیں معلوم کہ اس پر پیشرفت کیسے ہوگی، یہ وقت ہی بتائے گا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔