سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل(ر) فیض حمیدکیخلاف زمین پر قبضے کے الزام کی درخواست نمٹا دی۔ اور ریمارکس دیے کہ درخواستگزار کے پاس فیض حمید سمیت فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔
سپریم کورٹ میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کیخلاف زمین پر مبینہ قبضے کے الزام میں ہیومن رائٹس کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران معیز احمد نامی درخواستگزار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ 2017 میں فیض حمید کے حکم پر انکے گھر اور آفس پر ریڈ کیا گیا اور اس غیر قانونی کارروائی کا مقصد ہاوسنگ پراجیکٹ کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔
درخواستگزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت عظمیٰ فیض حمید کے خلاف شواہد پیش کرنے کی اجازت دے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواستگزار معیزاحمد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ کیا کیس میں خود پیش ہوں گے یا وکیل کے ذریعے۔ جس پر درخواست گزار نے جواب دیا کہ کل ہی وکیل کیا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کو مختصرعرصے کیئے ملتوی کردیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ التوا نہیں دیں گے ابھی ہی تیاری کرلیں۔ عدالت نے وکیل کوتیاری کیلئے وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔
کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت نے استفسار کیا کہ کیس میں درخواستگزارمعیز احمد کی نمائندگی کون کر رہا ہے۔ جس پر ایڈووکیٹ شہریار طارق نے عدالت کو بتایا کہ درخواستگزار کا وکیل میں ہوں۔ اور وکیل حفیظ الرحمان چوہدری بھی اسی کیس میں وکیل ہیں۔
وکیل شہریارطارق نے الزام عائد کیا کہ فیض حمید نے 12 مئی2017 کو درخواستگزار کو بمعہ پانچ فیملی ممبرز اغوا کیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ توعدالت کیا کرے۔ جس پر وکیل نے استدعا کی کہ درخواست ہے کہ وزارت دفاع کو حکم دیا جائے کہ وہ فریقین کیخلاف کارروائی کرے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ کیس پہلے بھی اس عدالت کے سامنے آیا تھا۔ تو وکیل نے جواب دیا کہ ہماری درخواست تو پہلی بار سماعت کیلئے مقرر ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے دو درخواستیں ہیں۔ زاہدہ جاوید اسلم کی درخواست بھی ہمارے سامنے ہے۔
وکیل حفیظ الرحمان چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت مہلت دے کہ اس درخواست کودیکھ لیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تاریخیں دینے کی روایت ختم کردی ہے۔ چوہدری صاحب تیاری نہیں ہے تو گھرجائیں۔
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا اور ریمارکس دیئے کہ وقفے میں درخواستوں کاجائزہ لے لیں۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو اب تک اس کیس سے ہم سمجھ پائے وہ آپ کوبتا رہے ہیں۔ برطانیہ کی شہری زاہدہ اسلم نے2017 میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184 تین کا کیس دائرکیا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے چیمبر میں نومبر 2018 میں فریقین کو بلا کر کیس چلایا۔کیا چیف جسٹس چیمبر میں اکیلے سنگل جج کے طور پر فریقین کوطلب کرکے کیس چلا سکتا ہے۔ کیس میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود ہی ایف آئی اے، پولیس اور سی ٹی ڈی وغیرہ کونوٹس کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسی نوعیت کی درخواست زاہدہ اسلم نے چیف جسٹس گلزار کے سامنے بھی رکھی۔ سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل میں آرٹیکل 184 تین کی درخواستیں دائرکی گئیں۔ جو درخواست ہمارے سامنے ہے یہ بھی 184 تین کے ہی تحت دائرکی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہیومن رائٹس سیل اور سپریم کورٹ میں فرق ہے۔ کیس کے حقائق میں نا جائیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپنے فیصلےمیں قراردیا تھا ہیومن رائٹس سیل غیرقانونی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل کسی قانون کے تحت قائم نہیں ہے۔ ماضی میں ہیومن رائٹس سیل کے ذریعے بدترین ناانصافیاں ہوئی ہیں۔ کوئی چیف جسٹس قانونی دائرہ اختیار سے باہر کے معاملات پرنوٹس نہیں لے سکتا۔ جو معاملہ جوڈیشل دائرہ اختیار میں آیا ہی نہیں اس پر چیف جسٹس نے سماعت کیسے کی۔
عدالت عظمیٰ نے درخوست گزار کو دیگر فورمز سے رجوع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ریٹائرڈ آرمی افسر کے خلاف وزارت دفاع میں جانے کا آپشن موجود ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ درخواستگزار کے پاس فیض حمید سمیت فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔ عدالت نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹا دی۔