ٹیکنالوجی کی خوبی ہے کہ یہ ہمیں بآسانی ہمارے مطلوبہ اہداف تک فوری لے جاتی ہے۔ یہ آغاز ہے کہ ایک انسانی ذہن کو کس طرح محنت سے بچا کر سستی اور کاہلی کا غلام بنایا جائے۔ ہم میں سے بیشتر اپنے معاملات میں سہولت برتنے کے لئے کئی قسم کی مشینوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان عام استعمال ہونے والی مشینوں میں ایک مشین موبائل ہے جو آج کل کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ یعنی فون کے ساتھ ساتھ کیمرا، کیلکولیٹر، ٹی وی اور نہ جانے کن کن آپریٹنگ ٹولز کو ہم سے فقط ایک انگلی کے مس کرنے تک کے فاصلے تک لے آئی ہے۔ یہ چھوٹی سی مشین انٹرنیٹ کے ذریعے ہمیں پوری دنیا سے یوں ملائے بیٹھی ہے کہ انسان پلک جھپکنے میں دنیا میں ہونے والے مظاہرات دیکھ سکتا ہے۔
ایک ترقی پذیر اور پسماندہ ملک جو ابھی اپنی بالغ عمری تک نہ پہنچا ہو وہاں ٹیکنالوجی کا استعمال اسے فائدہ کی بجائے نقصان سے دو چار کرتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل جس سے اس ملک کو بڑی امیدیں ہیں آج وہ اس موبائل کے ہاتھوں اپنا قیمتی وقت جس طرح برباد کر رہی ہے یہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے بڑے جو کہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر لے جانا چاہتے ہیں کیا اس ترقی سے مراد انکی ذاتی ترقی ہے یا قومی ترقی؟ لیکن نوجوان نسل جس طرح خراب ہو رہی ہے اس سے یہ لگتا ہے کہ یہ ذاتی ترقی ہے۔ کیونکہ ریاست کی باگ دوڑ میں نوجوانوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگر جان بوجھ کر اس نسل کو وقت کے ضیاع پر اکسایا جا رہا ہے تاکہ ایک بیمار اور پسماندہ قوم تخلیق کی جا سکے جو حکمرانوں کے کسی بھی فیصلے کو چیلنج کرنے کہ اہلیت نہ رکھتی ہو۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اگر سامنے رکھ کر سوچا جائے تو وہ کوئی بھی ایسی ٹیکنالوجی کو اس قدر پروموٹ نہیں کرتے جو انکی نوجوان نسل میں بگاڑ پیدا کرے۔ وقت کا ضیاع بننے والے سوشل نیٹ ورکس جیسے فیس بک، انسٹا گرام یوٹیوب ٹویٹر وغیرہ چائینہ جیسے قابل قدر ملک میں بین ہیں۔ وہاں انکے اپنے بنائے ہوئے سوشل نیٹ ورک ہیں جو قوم کو ذہنی طور پر بالغ بنانے کے لئے ڈیزائین کیے گئے ہیں۔ تاکہ انکی ہر سرگرمی کو نوٹ کیا جائے اور کوئی بھی اخلاق سوز حرکت انکی نوجوان نسل میں کسی قسم کا ذہنی فتور پیدا نہ کرے۔
ہمارے ہاں کئی وجوہات ایسی ہیں جن کو دیکھ کر یہ خوف پیدا ہونے لگ گیا ہے کہ ہم ایک بیمار اور اخلاق باختہ قوم بننے لگ گئے ہیں۔ آج آپ جس گھر، جس گلی یا دفتر جائیں وہاں ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے اپنے فیس بک اکاؤنٹ کو سکرول کرتا ہوا یا پھر یوٹیوب پہ ویڈیوز دیکھتا نظر آئے گا۔ یعنی ہمیں ادراک ہی نہیں ہے کہ ہم وقت کا بہتریں حصہ صرف اس سکرولنگ اور سوشل نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے ضائع کر رہے ہیں۔ برا ہو ان سیلولر نیٹ ورک کمپنیوں کا جنھوں نے سستے نیٹ بنڈلز متعارف کروا کر ہمیں ناکارہ بنا دیا ہے۔
بچے والدین سے اور والدین بچوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کل کی مائیں ناقص تربیت کی وجہ سے شیر خوار بچوں کو صرف خود کو مصروفیت سے بچانے کے لئے کارٹون نیٹ ورک پر لے آئی ہیں۔ بچہ رویا نہیں اور ماں نے اس شور سے بچنے کے لئے کوئی گیم یا کارٹون لگا کر موبائل اس کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی ماؤں کو تربیتی سینٹر میں پہلے خود داخل کرانا چاہئے کہ وہ اس قابل ہو سکیں کہ وہ اپنے بچے کی صحت مند پرورش کر سکیں۔ اگر بچہ سنبھالنے لائق ہی نہیں ماں تو اس کو ایسی بھاری ذمہ داری نہیں سونپنی چاہئے۔ کیونکہ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آج ہم نے ایوبی جیسے مرد اور اور عبدالسلام جیسے سائنسدان پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں۔ ایسی پھوہڑ ماں جو اپنے بچے کی ایسی ناقص تربیت کرے گی تو بچہ ایک صحت مند اضافہ تو نہیں ہو گا کسی بھی سماج کی ترقی میں۔
سوشل نیٹ ورک سکرولنگ کوئی عادت نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جسے OCD یعنی (Obstructive Compulsive Disorder )کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس میں مبتلا افراد بس ایک ہی طرز کی حرکتیں بار بار کرتے رہتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ انھیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ جیسے ہی موبائل کچھ دیر کے لئے رکھتے ہیں پھر بلا سوچے سمجھے اسے اٹھا کر سکرولنگ شروع کر دیتے ہیں۔ یہ غیر ارادی حرکتیں انسان کو کئی اور جسمانی عارضے کی طرف لے جاتی ہیں۔ موبائل کے استعمال سے اکثر لوگ بے چینی اور سر درد کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ چیٹنگ اور دوسری غیر ضروری سرگرمیوں سے نیند کے دورانیے میں خلل پڑتا ہے اور کام کاج والے اشخاص زیادہ تر چڑچڑا پن اور ذہنی کمزوری سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ ایک ہی جگہ پر گھنٹوں بیٹھے رہنے سے افراد کے اعضا مضمحل اور اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی ویڈیو میں مار دھاڑ یا کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت بار بار دیکھی جا رہی ہو تو اس سے ذہن پراگندہ ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ کوئی سنسنی سے بھر ہور متحرک تصویر دیکھنے سے شریانوں میں خون کی گردش بڑھ جاتی ہے۔ اور اگر یہ بار بار ہونے لگ جائے تو انسان کی موت بھی عارضہ قلب سے لاحق ہو سکتی ہے۔ کیونکہ خون کا پریشر بڑھنے سے کوئی نہ کوئی شریان پھٹ سکتی ہے۔
وہ نوجوان جو اپنے تعلیمی مشاغل کو پس پشت ڈال کر موبائل کو ہی اپنا مستقبل بنائے بیٹھے ہیں ان کا کیرئیر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ بے چینی چڑچڑا پن اور احساس ندامت یہ سب مل کر اس کے مزاج کو آتشیں بنا دیتے ہیں اور اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ اس کا کیا مصرف ہے اس زندگی میں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو اسے منشیات کی طرف لے جاتے ہیں۔ وقتی اذیت سے بچنے کے لئے وہ ایک اور لعنت اپنے گلے لگا دیتا ہے۔ یہ لعنت اسے اس لئے بھی خوبصورت لگتی ہے کہ آج کل اکثر فلموں میں منشیات کا استعمال دکھانا عام سی بات ہو گئی ہے۔
ایک انڈین مووی کچھ عرصہ پہلے ریلیز ہوئی تھی جس میں ہیرو لڑکی سے دلبرداشتہ ہو کر انتقاماً چرس اور شراب کے نشے میں غرق ہو جاتا ہے۔ وہ پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوتا ہے۔ اس میں جنسی بے راہ روی سے لے کر ہر وہ برائی ہوتی ہے جسے کوئی بھی شریف زہن اپنانا اپنے لئے باعث عار سمجھے گا۔ مگر بھلا ہو ہماری نوجوان نسل کا جو اس قدر اس مووی کی فین ہوئی کہ اس ہیرو کے چشمے سے لے کر چرس شراب تک ہر وہ بری عادت جو اس نے اس فلم میں اپنائی وہ نوجوانوں نے اپنا لی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہے۔ عام سی سگریٹ سے شروع ہونے والی یہ برائی کہاں جا کر رکتی ہے اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
بچے جو کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں وطن عزیز میں ناقص تربیت اور غیر ضروری مشاغل اپنا کر اپنے ساتھ ساتھ ملک کو بھی ناقابل قدر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وہ افراد جو موبائل فون کا استعمال نشے کی حد تک کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے معاملات سلجھانے اور خاندانی روابط برقرار رکھنے میں ناکامی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ قانون فطرت سے ہٹ کر زندگی گزارنے سے ذہنی امراض بڑھ جاتے ہیں۔ اگر انصاف کی عینک لگا کر چار سو دیکھیں تو ہمیں کوئی بھی ایسا ذی روح نظر نہیں آئے گا جو کسی قسم کے ذہنی مرض اور ہیجان میں مبتلا نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری وہ بری عادتیں ہیں جو نشے کی طرح ہمیں لگ چکی ہیں۔
بد قسمتی سے ہر وہ سماجی بگاڑ پیدا کرنے والی عادتوں میں پاکستان اپنی اہمیت بڑھاتا جا رہا ہے۔ یو این کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان منشیات کا زیادہ استعمال کرنے والے ممالک کی صف میں آن کھڑا ہوا ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے لگ بھگ 8 سے 9 ملین افراد نشے جیسی لعنت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور ہر سال اس میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اس ملک کو منشیات کا بے دریغ استعمال کرنے والے ممالک میں ممتاز کر رہا ہے۔ اس لعنت کا مرتکب ہو ںے والے افراد کی اوسط عمر پندرہ سے ساٹھ برس ہے۔ اس رو سے دیکھا جائے تو ہمارے حکمران ہمارے نوجوانوں سے کس قدر محبت رکھتے ہیں اور انکی تربیت کے لئے کیسے کیسے نشے بغیر رکاوٹ کے مہیا کر رہے ہیں۔ حیف ہے اس نظام پر جو اس قدر بگڑا ہو اہے جس کی کسی بھی شاخ کو چھیڑو وہی گند سے اٹی ہوئی ہے۔