ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ 1965 میں بزدل دشمن نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر حملہ کر دیا تھا اور ہماری افواج نے انتہائی کامیابی سے نہ صرف وطن عزیز کا دفاع کیا بلکہ بھارت کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اس کے بڑے علاقے پر فتح حاصل کر لی۔ نتیجتاً بھارت بھاگتا ہوا اقوام متحدہ گیا اور سیز فائر کی بھیک مانگتے ہوئے جنگ ختم کروا دی۔
مطالعہ پاکستان کی نصابی کتابوں سے شروع ہو کر پڑھایا جانے والا یہ مغالطہ میڈیا دانشوروں اور اساتذہ کی مہربانی سے زندگی کے ہر مرحلے پر وطن عزیز کے بسنے والے باشندوں کو سنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں آج کے دور جدید میں بھی وطن عزیز میں بسنے والے کروڑہا افراد اس کو سچ مانتے ہوئے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ایک دن دہلی کے لال قلعے پر ہم بزور طاقت اپنا سبز ہلالی پرچم لہرا کر ہی رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1965 کی جنگ کا آغاز پاکستان کی جانب سے آپریشن جبرالٹر کو لانچ کر کے شروع کیا گیا۔ اس آپریشن کا مقصد بھارتی زیر تسلط کشمیر میں اپنے فوجیوں کو بھیج کر مقامی آبادی کو ساتھ ملاتے ہوئے بھارتی زیر انتظام کشمیر کو فتح کرنا تھا۔
پاکستان کا خیال تھا کہ بھارت 1962 میں چین کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد کمزور ہو چکا تھا اور بھارتی زیر تسلط کشمیر کی مقامی آبادی بھارت کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کرنے کو بیتاب بیٹھی تھی۔ 5 اگست 1965 کو پاکستان نے تقریباً 33 ہزار کے قریب فوجی سادہ کپڑوں میں بھارتی کشمیر کے مختلف علاقوں میں بھیجے تاکہ کشمیر کی مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر کشمیر کے چیدہ چیدہ حصوں کو حاصل کیا جا سکے۔ لیکن بھارتی زیر تسلط کشمیر کے باسیوں نے پاکستان کی توقعات کے برعکس پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔
15 اگست 1965 کو بھارتی فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے سیز فائر لائن عبور کی اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ اگست کے اختتام تک پاکستان نے بھارت میں اڑی، پونچھ اور تھتوال پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا جبکہ بھارتی افواج نے پاکستانی کشمیر میں حاجی سرپاس کی چوٹی پر قبضہ جما لیا تھا۔ یکم ستمبر کو پاکستان نے بھارتی کشمیر میں اخنور کے مقام کو فتح کرنے کے لئے آپریشن گرینڈ سلیم کا آغاز کیا اور چھمب کے سیکٹر پر بھارتی فوج کو شدید نقصانات سے دوچار کیا لیکن اخنور پر قبضہ کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ اسی اثنا میں بھارت نے پنجاب کی سرحد سے پاکستان کے خلاف حملہ کر دیا۔ 6 ستمبر 1965 کو لاہور اور سیالکوٹ کے محاذ پر شدید لڑائی کا آغاز ہوا اور پھر جنگ کا دائرہ کار وسیع ہوتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان ایک مکمل جنگ (Full scale war) کی صورت میں پھیل گیا۔
فیڈرل ریسرچ ڈیوژن آف امریکہ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی یہ جنگ بے نتیجہ رہی لیکن پاکستان کو اس جنگ میں زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے۔ اسی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق اگر یہ جنگ کچھ دن مزید جاری رہتی تو پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ مشہور مصنف سٹینلے وولپرٹ نے اس جنگ کے بارے میں کہا تھا کہ اگر اقوام متحدہ سیز فائر نہ کرواتی تو بھارتی افواج لاہور پر قبضہ کر لیتیں یا پنجاب میں پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچا بیٹھتیں۔
اس جنگ کا اختتام تاشقند معاہدے کی صورت میں ہوا جہاں ہندوستان نے پاکستان کی فتح کی گئی لگ بھگ 1840 کلومیٹر زمین کو چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کی جبکہ پاکستان نے بھارت کی لگ بھگ 540 کلومیٹر مفتوحہ زمین کو چھوڑنے پر آمادگی کا اعلان کیا۔ اس جنگ کے دوران البتہ پاکستان فضائیہ کے کردار کو پوری دنیا میں سراہا گیا جس نے واضح طور پر بھارتی فضائیہ کو اس جنگ میں بےپناہ نقصان سے دوچار کیا۔ لیکن چونکہ آپریشن جبرالٹر اور آپریشن گرانڈ سلیم کے ذریعے کشمیر کو فتح نہ کیا جا سکا اور اپنی ہی سرزمین کا 1840 کلومیٹر رقبہ بھی بھارت کے ہاتھوں گنوایا گیا اس لئے دنیا بھر میں 1965 کی جنگ کو پاکستان کی ناکامی قرار دیا جاتا ہے۔
چونکہ اب یہ صدی معلومات تک رسائی کی صدی ہے اس لئے اس دور جدید میں اس طرح کے جھوٹ اور پراپیگینڈے سے ہم نہ صرف اپنی نئی نسل کو حقائق سے دور رکھتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو اپنے اوپر ہنسنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ویسے بھی جنگ نہ تو کسی مسئلے کا حل ہوتی ہے اور نہ ہی اس کو گلوریفائی کرنے سے اذہان کو شدت پسندی کی جانب راغب ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہم بطور قوم جنگوں اور جہاد کو گلوریفائی کرنے کے بدترین ردعمل کو بھگت چکے ہیں۔ جہاد اور جنگ کے بل پر بھارت اور دیگر دشمنوں پر غلبہ پانے کی خواہش میں ہم نے خود اپنے گھر کو جلتے دیکھا۔ دنیا آج جن کو دہشتگرد کہتی ہے وہ کبھی ہمارے ہیروز ہوا کرتے تھے، آج جس سوچ کو دنیا شدت پسند قرار دیتی ہے وہ سوچ ہم اپنے نصاب کی کتابوں اور جنگی جنون کو ہیروازم قرار دے کر خود پیدا کرتے ہیں۔
حب الوطنی کا مطلب ہرگز بھی حقائق کو مسخ کرتے ہوئے اپنی نسلوں کو دشمنوں کی ساتھ نفرت کی آگ کی بھٹی میں جھونکنے کا نام نہیں ہوا کرتا۔ دفاع کے لئے ہتھیاروں سے زیادہ مضبوط معیشت، جدید ٹیکنالوجی اور تعمیری و مثبت سوچ پر مبنی جدید اذہان درکار ہوتے ہیں۔ جنگوں کے دن منانے کے بجائے اگر اسی زور و شور سے معاشرے میں لڑائی قتل اور خون بہانے کے خلاف امن کے دن منائے جائیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم اپنے معاشرے سے شدت پسندی کا باآسانی خاتمہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اس کے لئے سب سے پہلے تاریخ مسخ کرنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا اور جنگوں یا جنگوں میں ہونے والی اموات کو گلوریفائی کرنے کے عمل کو ختم کرنا لازمی ہے۔
ماضی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سے سبق سیکھ کر حال اور مستقبل کو بہتر ضرور بنایا جا سکتا ہے تا کہ ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ دہرانے کا احتمال نہ ہو۔ میجر عزیز بھٹی، ایم ایم عالم اور ان جیسے کئی سپاہی یقیناً بہادر انسان تھے جنہوں نے وطن کی مٹی کی محبت کی خاطر اپنا جیون قربان کر دیا اور ان کا ذکر و تعارف آنے والی نسلوں تک ضرور پہنچانا چاہیے لیکن ساتھ ہی ساتھ آنے والی نسلوں کو ان غلط ترجیحات اور سٹریٹیجک غلطیوں سے بھی روشناس کروانا چاہیے جن کے نتیجے میں ہم جنگوں کی جانب دھکیل دیے گئے۔ ہمیں ایسے اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے جن کے نتیجے میں نہ تو کسی سپاہی کو جنگوں میں اپنی جان کا نذرانہ دینا پڑے اور نہ ہی جنگوں یا قتل و غارت گری کو کوئی قابل تعریف فعل گردانا جائے۔ حقائق مسخ کرنے اور جنگوں کو گلوریفائی کرنے سے زیادہ ہمیں امن پیار محبت اور علم و آگہی کی شمعیں جلانے کی ضرورت ہے تا کہ ہمارے سماج سے بیرونی دنیا سے نفرت کے تصور اور شدت پسندی کا خاتمہ ہو سکے اور ہمیں بھی دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور امن سے محبت کرنے والا معاشرہ گردانا جائے۔
کالم نگار
مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔