نواز شریف واپسی سے متعلق کیا سوچ رہے ہیں، سینیئر صحافی نے بتا دیا

نواز شریف واپسی سے متعلق کیا سوچ رہے ہیں، سینیئر صحافی نے بتا دیا
اہل سیاست سے کبھی فرصت کے لمحوں میں سیاست کے رموز جاننے کے لئے نشست رکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیاست کا پیشہ بھی کہیں کہیں ماہی گیری سے مماثلت رکھتا ہے۔ ایک ماہی گیر کو اندازہ کرنا پڑتا ہے کہ کب پانی چڑھا ہوا ہے اور کب پانی میں ٹھہراؤ ہے؟ کب بھپری ہوئی موجوں کو کاٹ کر ان میں سے ماہی مست آب کے بڑے ذخیرے نکالنے ہیں اور کب ٹھہرے ہوئے پانیوں میں بھی جانے سے احتراز برتنا ہے۔ کب کانٹا ڈالنا اور نہ چاہتے ہوئے بھی پھنسی ہوئی مچھلیوں کو کسی اور وقت کے لئے جانے دینا ہے۔ اور کب جال ڈال کر سب کا سب ہی کھینچ لینا ہے۔ ایک کامیاب ماہی گیر وہی ہے جو کنارے پر ہی چپو سے ٹکراتی لہروں کی دھار سے گہرائیوں کے مزاج کا اندازہ کر لے۔ لیکن اس فن میں بھی کمال پانے کے لئے سر توڑ محنت، لمبے عرصے پر محیط تجربہ جس میں موسموں کے بدلاؤ سے دریاؤں اور سمندروں کے مزاج کی تبدیلی تک جان لینے کا ہنر آتا ہے، بنیادی تقاضے ہیں۔

سیاست میں بھی یہی کچھ ہے۔ سیاست کی سیدھی اور شاید ناگوار سی تعریف کی جائے تو سیاست کسی معاشرے میں طاقت پا لینے کا نام ہے جس کے تئیں ایک گروہ یا شخص اپنے نظریات اور مفادات کو لاگو کر پاتا ہے۔ اس کھیل میں بھی کامیاب وہ ہے جو سیاست کے ایک ایک نقش و نگار کے مادے سے واقف ہے۔ جسے عوامی مزاج کے بارے میں معلوم ہے کہ کب کون سا راگ وہ گائے تو سب اس کے سر میں سر ملا لیں گے۔ اور پھر اس سلسلے میں سے اہم یہ کہ کب ٹھنڈا ہو رہنا اور کب نہیں۔ جب لہریں چڑھی ہوں تو کب ٹکرانا ہے اور کب ان سے احتراز برتنا ہے؟ اور جو اس فن پر عبور پا جائے وہی ایسا مقام حاصل کر پاتا ہے کہ کارزار سیاست میں ہمیشہ ہی اہمیت کا حامل رہے۔

یہ صورتحال اس وقت نواز شریف کی ہے۔ 37 سالہ سیاسی تجربے کے دوران ہر طرح کا اتار چڑھاؤ دیکھ لینے والا پاکستانی سیاست کا یہ کردار گو کہ آج لندن میں موجود ہے مگر پھر بھی وہ پاکستانی سیاست سے یوں جڑا ہوا ہے کہ ایک آدھی تصویر ہی ملک کے سیاسی بیانئے میں ارتعاش پیدا کرنے کے لئے کافی ہے۔

اب جب کہ 9 ستمبر کو نواز شریف عدالت کی جانب سے مطلوب ہیں، ملکی سیاسی و صحافتی پنڈت پوچھ رہے ہیں کہ وہ کب آئے گا؟ یہی سوال سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں پوچھا ہے اور نواز شریف کی واپسی اور سیاسی زندگی کے بارے میں تجزیہ بھی کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ اب وقت ہے کہ وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے خاموشی، بیماری اور بیرون ملک رہنے کا جواز دے۔ مخالف اس کی بیماری کو بہانہ بازی کہہ رہے ہیں، حکومت اور عدالت اُسے واپس بلا رہی ہے، ایسے میں چپ کا روزہ توڑنا ہوگا اور اگلے سیاسی اہداف طے کرنا ہوں گے، صاف لگتا ہے کہ وہ ابھی نہیں آئے گا، علاج کروائے گا، دل کا بائی پاس ہونا ہے اس کے مرحلے سے گزرے گا اور پھر سیاسی لائحہ عمل سوچے گا۔ ویسے بھی اسے کیا پڑی ہے کہ وہ واپس آئے، نہ تو کوئی تحریک چل رہی ہے، نہ الیکشن کا کوئی موسم ہے، نہ ملک کی سیاست میں تلاطم ہے، نہ حکومت اور ریاستی اداروں میں کسی خلیج کی کوئی خبر آ رہی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور بےچینی موجود ہے مگر ابال کی سطح پر نہیں، ایسا نظر نہیں آ رہا کہ لوگ گھروں سے باہر نکلنے والے ہیں۔ ایسے میں وہ کیوں نہ بےفکری سے لندن میں آرام کرے، علاج کروائے، اپنی یادداشت کھوتی ماں کے ساتھ وقت گزارے، موقع ملے تو ہائیڈ پارک میں سیر کرے، اہلِ خانہ کے ساتھ کافی پیے یا کھانے کھائے۔ وہ کیوں نہ انتظار کرے کہ حالات میں کچھ تبدیلی آئے، کوئی اختلاف پیدا ہو، سیاست میں گرمی آئے، عدالتی، انتظامی یا ریاستی عہدیداروں میں اس کے حق میں کوئی تبدیلی آ جائے، فی الحال وہ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن ہے اور اسے یہی پالیسی سوٹ کرتی ہے۔ 1983 سے لے کر 2020 تک کے 37 سال میں اس نے اپنے ووٹ بینک کو مسلسل بڑھایا ہے اور اپنی مقبولیت کو برقرار رکھا ہے، اسے اکنامکس کے پیچیدہ فارمولوں کا علم ہو نہ ہو، عوام کی خوشحالی کے فارمولے کا علم ہے۔ اسے انجینئرنگ کی ڈرائنگز کا علم ہو نہ ہو، تعمیرات اور سڑکوں کی اہمیت کا علم ہے۔ اسے علمِ سیاسیات کے ابواب سے آگاہی ہو نہ ہو یہ ضرور علم ہے کہ کب بولنا ہے اور کب سیاسی طور پر خاموش رہنا ہے۔

وہ کئی بار مشکلوں سے گزرا، پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل سیاسی طور پر خودکشی کے مترادف تھی مگر اس نے اسے حرمین شریفین میں بلائے جانے کے بیانیے میں ایسا ملفوف کیا کہ کئی سال تک جلاوطنی یا ڈیل کے درمیان فرق ہی محسوس نہ ہو سکا۔ فی الحال بھی نواز شریف کی پُراسرار خاموشی کا سبب سراسر سیاسی مصلحت ہے، وہ زبان اسی وقت کھولے گا جب سیاسی موسم اسے سوٹ کرے گا۔

وہ پرانی وضع کا سیاست دان ہے، ٹھنڈا ٹھنڈا چلتا ہے مگر اس کی سیاست کی ٹائمنگ کمال کی ہے، وہ ٹائمنگ میں صرف ایک بار ’چوکا‘ ہے جب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد اس نے جے آئی ٹی کے پاس اپنی حاضری کو بلا تامل قبول کر لیا وگرنہ اس کے بیشتر سیاسی فیصلے چاہے جونیجو سے علیحدگی ہو، غلام اسحاق خان سے لڑائی ہو، فاروق لغاری کے خلاف امپیچمنٹ ہو، سب کی ٹائمنگ بہت اچھی تھی۔

اطلاع یہی ہے کہ وہ سیاسی حالات کا مسلسل جائزہ لیتا رہتا ہے، اسے علم ہے کہ لمبی خاموشی اور طویل وقفہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا، اسے یا تو واپس آنا ہے یا بولنا ہے؟ وہ فی الحال واپس نہیں آ سکتا تو بیٹی اور بھائی کو تو متحرک کر سکتا ہے، فی الحال وہ بیٹی کے ذریعے مزاحمتی اور بھائی کے ذریعے مفاہمتی بیانیے کو جاری رکھے گا۔

سیاست کے فیصلہ کن موڑ پر وہ طے کرے گا کہ کون سا بیانیہ سوٹ کرتا ہے اورپھر اس بیانیے پر عمل کرے گا۔ اسے سیاسی مسئلے کے علاوہ وراثتی مسئلہ بھی درپیش ہے۔ وہ یہ تو فیصلہ کر چکا ہے یا پھر یہ فیصلہ خود بخود ہو گیا ہے کہ اس کے اپنے بچوں میں سے صرف مریم ہی سیاست کرے گی، حسین اور حسن نواز شریف فی الحال اپنے کاروبار ہی کریں گے۔ یہ بھی طے ہے کہ پارٹی کی صدارت شہباز شریف کے پاس رہے گی۔

مسئلہ یہ ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز کی آپس میں سیاسی ایڈجسٹمنٹ کیسے ہو۔ شہباز شریف نے لندن میں میاں نواز شریف کو یہ معاملہ طے کرنے کو کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ فیملی سربراہ کے طور پر آپ جو بھی فیصلہ کریں گے وہ مجھے اور حمزہ دونوں کو سو فیصد قبول ہو گا۔ مریم نواز کو بھی اس مسئلے کا علم ہے اور وہ بھی حمزہ شہباز شریف کے ساتھ مل کر کام کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتیں۔ گویا نواز شریف نے اپنی صحت اور خاندان کے ساتھ ساتھ سیاست کی ٹائمنگ کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔

سہیل وڑائچ کے مطابق جہاں عمران خان بھی اپنی حکومت کے لئے اگلے چھ ماہ اہم قرار دے چکے ہیں وہیں اپوزیشن کے لئے بھی گلے چھ ماہ اہم ہیں۔ اور اگر یہ چھ ماہ جس نے بھی اپنے اہداف درست سمت میں حاصل کر لیے تو آنے ولا مستقبل اس کا ہوگا۔