گزشتہ دنوں سے پاکستان کے نامور صحافی ایک دوسرےسے ٹویٹر پر باہم متحارب ہیں۔ معاملہ صحافی اعزاز سید کے روف کلاسرہ کے ٹویٹ پر کمںٹ کرنے والی ٹویٹ سے شروع ہوا جس ٹویٹ میں انہوں نے جنرل ر عاصم سلیم باجوہ کا شکریہ ادا کیا ہوا تھا کیوں کہ جنرل صاحب نے روف کلاسرہ کو پبلک نیوز جوائن کرنے پر مبارکباد دی تھی۔
اس پر آگ بگولہ ہوتے ہوئے روف کلاسرہ نے وہ سب احسانات انہیں جتائے جو انکے بقول انہوں نے اعزاز سید کے کرئیر کی ابتدا میں ان پر کئے تھے۔ اس کے بعد جو بھی اعزاز کے دفاع میں آیا روف کلاسرہ نے اس پر بھی احسان کرنے کا دعویٰ کیا۔ اور اسی رو میں وہ صحافی اسد علی طور اور مبشر زیدی پر یہ الزام بھی عائد کر گئے کہ ان دونوں نے روف کلاسرہ پر پلاٹ لینے کا غلط الزام عائد کیا تھا جس پر وہ عدالت گئے اور عدالت نے ان دونوں صحافیوں کو دس دس لاکھ روپے روف کلاسرہ کو بطور ہتک عزت کے دعویٰ کے دینے کا حکم دیا۔
اس حوالے سے روف کلاسرہ نے بظاہر عدالتی فیصلہ کی دو کاپیوں کے سکرین شاٹ بھی شئیر کر دیئے۔ تاہم اس معاملے پر اب صحافی اسد علی طور نے نیا دور کو بتایا کہ روف کلاسرا نے جو سکیرین شاٹ شئیر کئے وہ مارچ کے مہینے تھے۔ یہ کیسا عدالتی فیصلہ ہے جس میں فریقین کو معلوم ہی نہیں کہ کب کیس ہوا، چلا اور انکو سزا ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس حوالے سے کچھ بھی معلوم نہیں۔
اس سے قبل رؤف کلاسرہ نے ایف آئی اے میں انکے خلاف درخواست دی اور اسکے نوٹسز انہیں موصول ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اور مبشر زیدی اس حوالے سے اپنے وکلا سے بات کریں گے لیکن انہیں اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہوتا تو یہ کہ کیس جیتنے کے بعد رؤف کلاسرہ مجھ سے اور مبشر زیدی سے دس دس لاکھ کے جرمانے کا تقاضہ کرتے تاہم تب وہ چپ پو گئے اور اب کیچڑ اچھالنے کے لئےیکطرفہ فیصلے کے سکرین شاٹ شئیر کردیئے۔