پنجاب کی نگران حکومت نے ہائیکورٹ کے 11 ججز کو 36 کڑور روپے سے زائد قرضوں کی بلاسود منظوری دے دی۔
کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس نے ججز کو بلا سود قرضوں کی منظوری دی ہے۔ ججز کو ان کی 3 سال کی بنیادی تنخواہ کے برابر رقم قرض دی جائےگی۔ ہائیکورٹ کے ججز کو دیے جانے والے قرضے 12 سال کی مدت کے لیے بلاسود ہوں گے۔
ہائیکورٹ کے 11 ججز کو 3 سال کی 36 بنیادی تنخواہوں کے برابر قرض دیا جائے گا جو سوا تین کروڑ روپے اوسط بنتی ہے۔
کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے ایجنڈا نمبر 18،17 اور 19 میں 11 ججوں کو رقم دینے کے حوالے سے ہیں۔ ان ججوں کی بنیادی تنخواہ 9 لاکھ روپے ماہانہ سے زائد ہے۔ ان میں چھٹے نمبر پر جسٹس انوارالحسن بھی ہیں جنہوں نے شوگر ملز کے حوالے سے حکومت کے خلاف حکم امتناعی جاری کر رکھے ہیں۔
سرکاری افسروں کو اس سے قبل بلاسود قرض دینے کی ایسی کوئی مثال سامنے نہیں آئین حکومت سے بلاسود قرض لینے والے ججز میں جسٹس راس الحسن سید، جسٹس شکیل احمد، جسٹس محمد طارق ندیم، جسٹس محمد امجد رفیق، جسٹس عابد حسین چٹھہ، جسٹس انور حسین، جسٹس علی ضیاء باجوہ، جسٹس راحیل کامران، جسٹس احمد ندیم ارشد، جسٹس صفدر سلیم شاہد اور جسٹس محمد رضا قریشی شامل ہیں۔
دوسری جانب عدالت عالیہ کے 11ججز کو بلا سود 36کروڑ روپے کے قرضے کی منظوری کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججز کو بلا سود 36 کروڑ روپے کے قرضے کی منظوری کا فیصلہ شہری مشکور حسین کی جانب سے چیلنج کیا گیا ہے جس میں چیف سیکرٹری پنجاب، سیکرٹری فنانس سمیت دیگر فریق بنایا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ ججز کو بلا سود قرضہ فراہم کرنا غیر قانونی اقدام ہے کیونکہ ججز پہلے ہی بے شمار مراعات حاصل کر رہے ہیں۔
درخواستگزار نے کہا کہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ نگران حکومت بے دریغ استعمال نہیں کر سکتی۔ لہٰذا عدالت ججز کو قرضے دینے کی منظوری کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلے تک ججز کو قرضہ دینے کا اقدام بھی معطل کیا جائے۔