نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ الیکشن جنوری فروری سے پہلی بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان 90 دن میں انتخابات کا فیصلہ دے گی تو اس پر بھی عمل کیا جائے گا۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں میزبان عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل انوسٹمنٹ فیسیلیٹشن کونسل ( این آئی ایف سی) کے ذریعے ہونے والے معاشی اقدامات کے نتائج دسمبر کے آخر تک آنا شروع ہو جائیں گے۔
آپ کو لگتا ہے کہ انتخابات جنوری یا فروری میں ہوجائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے اس سے پہلے بھی ہوجائیں۔ لیکن چونکہ اس کاتعین الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کرنا ہے تو پم بھی اس انتظار میں ہیں کہ جیسے ہی وہ تاریخ کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے جڑی ہوئی جتنی بھی تیاری ہے وہ مکمل کرکے، ان کو سپورٹ کرکے جو آئینی فریضہ ہے وہ ادا کریں اور گھر کو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ جو فیصلہ دے اس پر عمل ہوگا۔ پاکستان کے ووٹر کا اختیار ہے کہ جس کو چاہے ووٹ دے کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔چیزیں آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائیں گی. عام انتخابات میں سب کو جلسوں، تحریر اور تقریر کی اجازت ہوگی۔ میں خود بھی دیکھوں گا جو جماعت معاشی اصلاحات کا پروگرام لائے اس کوووٹ دوں گا۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ہم 9 مئی کے واقعات میں کسی پاکستانی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ اُن لوگوں کے خلاف ہیں جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث تھے۔ جنہوں نے توڑپھوڑ کی اور قومی تنصیبات پر حملے کیے اور آگ لگائی۔ہم ان کے خلاف اس لیے ہیں کہ پاکستان کا قانون ان حرکتوں کے خلاف ہے۔
پاک بھارت تعلقات اورتجارت کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کےساتھ صرف تجارتی تعلقات اہم نہیں۔ بھارت برابری کی بنیاد پر مذاکرات کیلئے تیار نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا بھارت کے مفاد میں ہے۔ بھارت کو مذاکرات کا خود سوچنا ہو گا۔ وہ ہم سے بڑا ملک ہے۔ یہ اس کی ضرورت ہے۔
نگران حکومت سے غیرمعمولی توقعات کے سوال پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو بھی وقت ہمیں دیا گیا ہے ہم ایمانداری سے توقعات پر پورا اترنے اور اہداف پورے کرنے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کریں گے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے پہلے ہی ہفتے میں اپنی ترجیحات کو درست کرلیا۔ ہمیں اپنے تجارتی خسارے کا اندازہ ہے اور اس کا حل بھی پتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔مثال کے طور پر شمالی امریکا، یورپی یونین اور جی سی سی کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات ہیں۔ ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کو خطوں میں تقسیم کردیں۔ ہم سینٹرل ایشیا، کاکسز، ترکیہ اور ایران کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات بڑھائیں۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ سستی توانائی نہیں فراہم کریں گے تو آپ کو مینوفیکچرنگ سیکٹر کیسے درست ہوگا۔ ہم نے آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدات کیے ہوئے ہیں ان میں مداخلت، گردشی قرضوں کو کنٹرول میں لانے اور ریوینیو جنریٹ کرنے کیلئے ایف بی آر کی اصلاحات یا جسے آپ ڈجیٹلائزیشن آف اکنامی کہتے ہیں۔ اس کے توسط سے آئی ٹی منسٹری کی طرف سے ہمارے پاس پلان آگیا ہے۔
دورِ اقتدار کے اس ایک مہینے میں سب سے بڑے چیلنج کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ایک لفظ میں مجھے بتانا ہو تو معیشت، معیشت اور معیشت‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہوا تو ہم نے کہا کہ فوراً بجلی پیدا کرنی چاہیے۔ یہ جانے بغیر کہ اس بجلی کی کھپت کہاں ہوگی. انڈسٹریل سیکٹر میں کیسے ہوگی ڈومیسٹک سیکٹر میں کیسے ہوگی۔ اس کا اکنامک ماڈل قابل عمل ہے یا نہیں۔ میں (آئی پی پیز سے کیے) معاہدوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔
آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظر ثانی اور ان میں تبدیلی کے سوال پر نگران وزیراعظم نے کہا کہ جب آپ بطور ریاست معاہدات کرتے ہیں تو وہ بعض اوقات فائدہ مند ہوتے ہیں اور بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں لیکن آپ کو ان کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ بین الاقوامی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا کہ کل کو آپ کہہ دیں کہ یہ معاہدہ چونکہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے تو میں نہیں کرتا۔ یہ ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی آئی پی پی پیز کے ساتھ جو معاہدات ہوچکے ہیں۔ ان میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہاں کہاں مداخلت کرکے کیپیسیٹی چارج جو ہمیں دینا پڑ رہا ہے اس کی ارینجمنٹ درست کی جاسکے۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔
نگران حکومت کے اختیارات سے تجاوز کرنے کے سوال پر وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ایک طرف مشکل فیصلوں کیلئےدباؤ ہے تو دوسری طرف دباؤ ہے کہ آپ الیکشن کرائیں اور جائیں۔ ہمیں ایک بیلنس قائم کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، ہم یہاں نہ لانگ ٹرم (طویل مدت) کیلئے آئے ہیں نہ ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہے، کسی کے ذہن میں اس طرح کا خیال ہے تو وہ غلط فہمی دور ہوجائے تو بہتر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوانین کے ذریعے جو ہمیں اختیارات دیے گئے ہیں۔ خصوصی طور پر معاشی میدان میں کچھ فیصلوں کے اختیارات دیےگئے ہیں تاکہ وہ مشکل فیصلے ہوں جو شاید سیاسی جماعت مستقبل میں بھی نہ لے سکے۔ مشکل فیصلوں کا فائدہ عوام کو ہوگا۔ جو بھی جماعت مستقبل میں حکومت بنائےگی وہ اس مدت کے فیصلوں کو جاری رکھ سکےگی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں 90 فیصد لوگ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے۔ لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے، مشکل فیصلوں سےمستقبل میں بہتری آئے گی۔ ڈیجیٹلائزیشن سے کرپشن میں کمی آئے گی۔ اس معاملے میں جتنی ہم انسانی مداخلت کم رکھیں گے اتنی شفافیت اور کرپشن کم ہوگی، ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے ٹیکس نیٹ بڑھائیں گے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ ان فیصلوں پر احتجاج آئے۔ لیکن عمومی طور پاکستان کے عوام ان فیصلوں سے طویل مدت تک مستفید ہوں گے.
آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی بلوں میں محدود ریلیف دیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ ہم دور حاضر کے نیرو ہیں اور بانسری بجائے جا رہے ہیں۔ ہمیں کسی کا کوئی خیال نہیں۔ ایسا قطعاً نہیں ہے۔ آج سے سال ڈیڑھ سال پہلے میرا اتنا بجلی کا بل آیا کہ میرا دل کیا زور زور سے روؤں۔ مجھے احساس ہے کہ یہ مشکل سامنے آتی ہے تو جذباتی طور پر لوگ کیسے اس سے گزرتے ہیں۔
ہم اس نہج پر اس لیے پہنچے ہیں کہ لوگ جو اپنے حصے کا بوجھ نہیں اٹھا رہے محکمے وہ بوجھ دوسروں پر ڈال کر ان سے ریکوریز کر رہے ہیں۔
اس کا حل کیا ہے؟ اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ کیا حکومت چند ہفتوں میں یہ مسائل حل کرسکتی ہے؟ آئی پی پیز سے معاہدے ہیں۔ بجلی چوری روکنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے مسئلہ کے حل کیلئے مڈٹرم پلان چاہیے۔ ہم ڈسکوز کی نجکاری کا عمل شروع کر رہے ہیں۔ جس کے بعد ڈسکوز بجلی چوری روکنے کے اقدامات کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ قابل عمل پلان ہم دے چکے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے تک کچھ بہتری آئے گی۔ بجلی پر ریلیف کیلئے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔ توانائی کی بچت کیلئے بھی صوبوں سےمشاورت جاری ہے۔مغرب تک کاروباری مراکز بند کرانے پر بات ہورہی ہے۔ شرعی طور پر مغرب کے بعد کسی کے گھر جانا منع ہے۔
ایسا تاثر جارہا ہے کہ فوج اور نگران حکومت الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ اس بات کے جواب میں نگران وزیراعظم نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی یہ تاثر کیوں جارہا ہے۔ پاکستان ملٹری آئین کے تحت حکومت کا ایک جُز ہے۔ہم نے جہاں جہاں فوج کو مدد کی درخواست کی ہے فوج نے فوراً اس پر عمل کیا ہے۔ دن میں کئی بار مختلف معاملات پر پاک فوج سے رابطہ ہوتا ہے۔ عسکری قیادت کی ملاقاتیں بھی اسی سلسلہ کاحصہ ہیں۔ پاک فوج بھی پالیسیز پرعملدرآمد کیلئے مدد کررہی ہے۔ میں اور وہ الگ مل رہے ہیں یہ تاثر دینا غلط ہے۔ نگران حکومت اور پاک فوج کا ہدف ایک ہی ہے۔ فیصلے کرنا حکومت کا کام ہے۔ فوج سے تعاون لیا جاتا ہے۔میرٹ پر اداروں سے مدد لی جاتی ہے۔
انوارالحق کاکڑ اسٹبلشمنٹ کے آدمی ہیں؟ اس سوال کے جواب پر ان کا کہنا تھا کہ میں اُن کا آدمی ہوں یہ سیاست کا غیرضروری عنصر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اُن کے رہیں۔ہم اُن کے ہوتے ہیں۔ پھر اُن سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ پھر سے اُن کے ہونا چاہتے ہیں۔ یہ معاملہ چلتا رہتا ہے۔