سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ (II)

بنیاد پرستوں کی نظر میں سائنس بنیادی طور پر خدا کے مزید ثبوتوں کو قائم کرنے، اسلام اور قرآن کی سچائی کو ثابت کرنے اور یہ دکھانے کے لئے بہت اہم ہے کہ مسلمانوں کے بغیر جدید سائنس ناممکن تھی۔ مزید یہ کہ اصل اہمیت قدیم دور ہی کی ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ 14 ویں صدی کے دوران کہیں رک گیا ہے۔

سائنس کو مسلم دنیا میں واپس لانے کے لیے کیا کرنا پڑے گا؟ (II)

( ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون امریکی ادارہ برائے طبیعات کے معروف جریدے ’’Physics Today‘‘ میں 2007 میں شائع ہوا۔ اردو قارئین کے لئے اسے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔اس مضمون کا پہلا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ زیر نظر ٹکڑا اس سلسلے کا دوسرا حصہ ہے: مترجم محمد علی شہباز)

قومی سائنسی ادارے

روایتی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بڑے بجٹ سے زیادہ سائنسی سرگرمیاں ہو سکتی ہیں یا اس سے سائنس کی زیادہ حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے۔ OIC کی 57 ریاستیں اپنی مجموعی قومی پیداوار کا اوسطاً 0.3 فیصد تحقیق اور ترقی پر خرچ کرتی ہیں جو عالمی اوسط یعنی 2.4 فیصد سے بہت کم ہے۔ تاہم اس قدر زیادہ اخراجات کی طرف رجحان کی وجہ بالکل واضح ہے۔ متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکمران نئی یونیورسٹیوں کی تعمیر اور ان میں کام کرنے والا عملہ دونوں کے لیے مغرب سے افرادی قوت درآمد کر رہے ہیں۔ جون 2006 میں نائیجیریا کے صدر Oblusegun Obasanjo نے اعلان کیا کہ وہ تیل کے منافع میں سے 5 کھرب ڈالر تحقیق و ترقی کی مد میں خرچ کریں گے۔ ایران نے عراق ایران جنگ کے اختتام پر 1988 میں تحقیق و ترقی کے اخراجات کو ڈرامائی طور پر بڑھایا جو آج ان کی مجموعی گھریلو پیداوار کے 0.4 فیصد کی موجودہ سطح پر ہے۔ سعودی عرب نے 2006 میں سائنس اور تعلیم پر اپنے ترقیاتی بجٹ کا 26 فیصد خرچ کرنے کا اعلان کیا اور 5000 طلبہ کو مکمل سکالرشپ پر امریکی یونیورسٹیوں میں بھیجا۔ پاکستان نے گذشتہ پانچ سالوں میں اعلیٰ تعلیم اور سائنس کے لیے فنڈز میں 800 فیصد اضافہ کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا۔

لیکن کثیر بجٹ بذات خود کوئی علاج نہیں ہے۔ ان فنڈز کو مفید بنانے کی صلاحیت ہونا زیادہ اہم ہے۔ ترقی کا تعین کرنے والا ایک اور عنصر دستیاب سائنس دانوں، انجینیئروں اور تکنیکی ماہرین کی تعداد ہے۔ او آئی سی ممالک کے لیے یہ تعداد کم یعنی اوسطاً 400 سے 500 فی ملین افراد ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ حد عام طور پر 3500 سے 5000 فی ملین افراد کے قریب ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم عناصر تحقیقی معیار اور پیشہ ورانہ مہارت ہیں جن کو مقداری طور پر ماپنا قدرے مشکل ہے۔ لیکن اس طرح کے اہم مسائل کو مناسب طریقے سے حل کیے بغیر فنڈنگ ​​میں اضافہ کرتے رہنے سے سائنسی فنڈنگ ​​اور کارکردگی کے درمیان کوئی ارتباط قائم نہیں کیا جا سکتا۔

سائنس کے استعمال سے جدید ٹیکنالوجی بنانا سائنسی ترقی ماپنے کا ایک اہم عنصرہے۔ جدول نمبر1 میں 7 ممالک کی فہرست کا جدول دوم سے موازنہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تحقیقی مضامین اور قومی معیشتوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے کردار کے درمیان بہت کم تعلق پایا جاتا ہے۔ جدول دوم کے ملک ملائشیا کی غیر معمولی حیثیت اس لئے ہے کیونکہ وہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے براہ راست بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور زیادہ تر ایسے ممالک ان کے تجارتی شراکت دار ہیں جن کا تعلق او آئی سی سے نہیں ہے۔

اگرچہ جدول دوم میں واضح نہیں ہے لیکن کچھ سائنسی شعبہ جات ایسے ہیں جہاں مسلم دنیا میں سائنسی تحقیق سے کچھ فائدہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ زرعی تحقیق کا شعبہ جو کہ نسبتاً سادہ سائنس ہے، اس سلسلے میں ایک مثال فراہم کرتا ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان میں کپاس، گندم، چاول اور چائے کی نئی اقسام کے اچھے نتائج ملے ہیں۔ دفاعی ٹیکنالوجی ایک اور شعبہ ہے جس میں مسلم ممالک نے سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ ان کا مقصد بین الاقوامی ہتھیاروں کے سپلائرز پر انحصار کم کرنا اور ملکی صلاحیتوں کو فروغ دینا ہے۔ پاکستان میں ایٹمی ہتھیار اور درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بنائے گئے اسلحہ کی برآمدات میں بھی تیزی سےاضافہ ہوا ہے جس سے ہتھیاروں کی بہت سی اصناف سامنے آئی ہیں جن میں دستی بم سے لے کر ٹینک تک، رات کو دیکھنے والے آلات سے لیزر گائیڈڈ ہتھیار سمیت تربیتی طیاروں کے لیے چھوٹی آبدوزیں شامل ہیں۔ ان برآمدات کی آمدنی 150 ملین ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ اگرچہ اسلحہ بنانے میں اصل اور تحقیقی پیداوار کے بجائے ریورس انجینیئرنگ (پہلے سے موجود تکنیک کا استعمال) زیادہ ہے مگر پھر بھی ضروری سائنسی اصولوں کی سمجھ اور تکنیکی اور انتظامی فیصلے کرنے کی صلاحیت بہرحال موجود ہے۔ ایران نے بھی پاکستان سے سبق لیتے ہوئے اسلحہ کی صنعت پر توجہ دی ہے۔

اعلیٰ تعلیم

ایک حالیہ سروے کے مطابق او آئی سی میں 57 رکن ممالک میں تقریباً 1800 یونیورسٹیاں ہیں۔ ان میں سے صرف 312 ہیں جو کہ تحقیقی جریدوں میں مضامین شائع کرتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شائع ہونے والے 50 ممالک کی درجہ بندی کچھ یوں ہے؛ ترکی میں 26، ایران میں 9، ملائشیا اور مصر میں 3، پاکستان میں 2 اور یوگنڈا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، لبنان ،کویت، اردن اور آذربائیجان میں سے ہر ایک میں بس ایک یونیورسٹی پرچے شائع کرتی ہے۔ بہترین 20 یونیورسٹیوں سے جرائد میں چھپنے والے مضامین کی اوسط سالانہ پیداوار 1500 ہے جو کہ چھوٹی لیکن معقول تعداد ہے۔ تاہم اوسط حوالہ (Citation) فی مضمون 1.0 سے کم ہے (سروے رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس میں ذاتی حوالہ جات کتنے ہیں)۔

دنیا بھر سے یونیورسٹیوں کا موازنہ کرنے کے لیے کم معلومات دستیاب ہیں۔ ملائشیا کے دو انڈرگریجویٹ ادارے ٹائمز ہائرایجوکیشن کے 2006 کے تعلیمی ضمیمہ کی ٹاپ 200 کی فہرست میں شامل تھے (دیکھیے www.thes.co.uk)۔ شنگھائی جیاؤ تنگ یونیورسٹی کے ذریعہ مرتب کی گئی 'عالمی یونیورسٹیوں کی تعلیمی درجہ بندی' میں او آئی سی کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات کی فہرست میں بھی نہیں آ سکی۔ (دیکھیے ed.sjtu.edu.cn/en)۔ اس صورت حال نے او آئی سی کے ڈائریکٹر جنرل کو اپیل جاری کرنے پر مجبور کیا کہ کم از کم او آئی سی کی 20 یونیورسٹیوں کو ٹاپ 500 کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے ان کے معیار کو کچھ حد تک بہتر بنایا جائے۔ بہرحال اس کے لئے کوئی ایکشن پلان متعین نہیں کیا گیا اور نا ہی 'معیار' کی اصطلاح کو واضح کیا گیا ہے۔

یہ درست ہے کہ کسی ادارے کا معیار بنیادی اہمیت رکھتا ہے، لیکن معیار کی تعریف کیسے کی جائے؟ انفراسٹرکچر فراہم کرنا اورسہولیات میں اضافہ اہم ہے لیکن یہ مسئلے کاحل نہیں ہے۔ مسلم ممالک کی زیادہ تر جامعات میں پڑھانے اور سیکھنے کا معیار انتہائی کم تر ہے، ان کے ہاں روزگار میں کام آنے والی مہارتوں کا فقدان ہے اور تحقیق ایسی ہے جو معیار اور مقدار دونوں میں کم تر ہے۔ مادی وسائل کی کمی کے بجائے ناقص تعلیمی نظام نامناسب رویوں کا زیادہ ذمہ دار ہے۔ اداروں میں عام طور پر اطاعت گزاری اور رٹا لگانے پر زور دیا جاتا ہے اور استاد کے اختیار کو شاذ و نادر ہی چیلنج کیا جاتا ہے۔ بحث، تجزیہ اور کلاس روم میں مکالمہ بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

زیادہ تر مسلم ممالک کی جامعات میں علمی اور ثقافتی آزادی پر انتہائی پابندی ہے۔ اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی جہاں میں پڑھاتا ہوں، وہاں بالکل ویسی ہی رکاوٹیں ہیں جیسی پاکستان کے دوسرے سرکاری اداروں میں موجود ہیں۔ یہ یونیورسٹی عام متوسط ​​طبقے کے پاکستانی طالب علم کے لئے ہے اور پیچھے دیے گئے سروے کے مطابق OIC کی یونیورسٹیوں میں اس کا مقام دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ دیگر پاکستانی سرکاری جامعات کی طرح یہاں بھی فلموں، ڈراموں اور رقص و موسیقی کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے اور بعض اوقات تو کچھ طالب علموں کی طرف سے جسمانی حملے بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں سے مسلم اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ کیمپس میں تین مساجد پہلے سے موجود ہیں اور چوتھی مسجد کی تعمیر کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے لیکن کتابوں کی کوئی دکان بہرحال نہیں ہے۔ کسی پاکستانی یونیورسٹی بشمول قائد اعظم یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنے ہاں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی حالانکہ انہوں نے پارٹیکل فزکس کے معیاری ماڈل (Standard Model) کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرنے کی وجہ سے 1979 میں فزکس کا نوبل انعام تک حاصل کیا تھا۔ احمدی فرقہ جس سے ان کا تعلق تھا اور جسے پہلے مسلمان سمجھا جاتا تھا اسے 1974 میں پاکستانی حکومت نے باضابطہ طور پر غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔

جوں جوں مسلم دنیا میں عدم برداشت اور عسکریت پسندی پھیلتی جا رہی ہے ویسے ویسے شخصی اور علمی آزادیوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ان ہی کے نقش قدم پر چلا جائے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں میں باپردہ خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور جو چند خواتین طالبات حجاب نہیں کرتیں ان پر شدید دباؤ ہے۔ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے عین مرکز میں حکومت کے تعاون سے چلنے والی مسجد و ملحقہ مدرسہ کے سربراہ نے 12 اپریل 2007 کو اپنے ایف ایم ریڈیو چینل پر میری یونیورسٹی کی طالبات اور فیکلٹی کے لیے مندرجہ ذیل انتباہ جاری کیا تھا؛

'حکومت مخلوط تعلیم کو ختم کرے۔ قائد اعظم یونیورسٹی کوٹھا بن چکی ہے۔ اس کی خواتین پروفیسرز اور طالبات قابل اعتراض لباس میں گھومتی ہیں۔۔۔ کھیلوں میں حصہ لینے والی خواتین عریانی پھیلا رہی ہیں۔ میں اسلام آباد کی خواتین کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ کھیلوں میں حصہ لینا چھوڑ دیں۔۔۔ ہمارے مدرسے کی خواتین طلبہ نے ان خواتین کے بے پردہ چہروں پر تیزاب پھینکنے کی دھمکی جاری نہیں کی۔ البتہ اس طرح کی دھمکی ان گناہگار عورتوں میں اسلام کا خوف پیدا کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ایسی عورتوں کے لئے آخرت میں اس سے زیادہ بھیانک سزائیں ہیں'۔

پردے کے نفاذ سے سماج میں فرق پڑتا ہے۔ میں اور میرے ساتھیوں کا ایک مشترکہ مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر طالبات، خاص طور پر پردہ دار خواتین، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی حد تک خاموشی سے کلاس نوٹس لینے والی بنتی جا رہی ہیں۔ یہ ڈرپوک بنتی جا رہی ہیں اور سوال پوچھنے یا بات چیت میں حصہ لینے کے لیے کم مائل ہوتی ہیں۔ اپنا اظہار نہ کرنے اور اعتماد کی کمی کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی یونیورسٹیوں کے طلبہ، بشمول ان طلبہ کے جو اپنی عمر کے بیسویں سال کے وسط یا اخیر میں ہیں، اپنے آپ کو بالغ مرد و خواتین کی بجائے کمسن لڑکے لڑکیاں کہلوانا پسند کرتے ہیں۔

سائنس اور مذہب اب بھی متضاد ہیں

سائنس عالمی سطح پر اور ہر مذہب کی طرف سے دباؤ میں ہے۔ جوں جوں سائنس تیزی سے انسانی ثقافت کا ایک غالب عنصر بن رہی ہے اس کی کامیابیاں خوف اور حیرت کے جذبات پیدا کر رہی ہیں۔ اس مظہر کا ایک پہلو مغرب میں کائنات کے مذہبی نظریہ تخلیق کا پرچار، جینیاتی تحقیق پر پابندیاں، سوڈو سائنس، پیرا سائیکالوجی، UFOs پر یقین وغیرہ شامل ہیں۔ امریکہ میں مذہبی قدامت پسندوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کی تعلیم کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انتہا پسند ہندو گروہ جیسے وشنو ہندو پریشد، جس نے عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا تھا، نے مختلف 'مندروں کے معجزات' کو فروغ دیا ہے جس میں ایک ہاتھی جیسا خدا بھی شامل ہے جس نے معجزانہ طور پر زندہ ہو کر دودھ پینے کا مظاہرہ کیا۔ کچھ انتہا پسند یہودی گروہ سائنس مخالف تحریکوں سے سیاسی طاقت بھی حاصل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مویشی پالنے والے کچھ امریکی سرمایہ دار سالوں سے اپنے اسرائیلی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر اسرائیل میں خالص سرخ گائے کی افزائش کی کوشش کر رہے ہیں جو 'کتاب اعداد' کے باب 19 کی تشریح کے مطابق 'تیسری عبادت گاہ' کی تعمیر کا اشارہ ہوگا جو ایک ایسا واقعہ ہے جس سے مشرق وسطیٰ بھڑک اٹھے گا۔

مسلم دنیا کے عوام میں سائنس کی مخالفت کچھ اضافی شکلیں لے لیتی ہے۔ سائنس مخالف مواد کی انٹرنیٹ پر بہتات ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں وسیع پیمانے پر ڈیزائن کی گئی مسلم ویب سائٹس ہیں جنہیں دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ایک عام اور کثرت سے دیکھے جانے والی ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل تحریر آویزاں ہے؛

'حال ہی میں دریافت ہونے والے حیران کن سائنسی حقائق، جن کو مسلمانوں کی مقدس کتاب اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے 14 صدیاں پہلے ہی درست طریقے سے بیان کر دیا گیا تھا'۔

یہاں آپ کو پتا چلے گا کہ کوانٹم میکینکس سے بلیک ہولز اور جینیات تک سب کچھ 1400 سال پہلے بتا دیا گیا تھا۔

بنیاد پرستوں کی نظر میں سائنس بنیادی طور پر خدا کے مزید ثبوتوں کو قائم کرنے، اسلام اور قرآن کی سچائی کو ثابت کرنے اور یہ دکھانے کے لئے بہت اہم ہے کہ مسلمانوں کے بغیر جدید سائنس ناممکن تھی۔ مزید یہ کہ اصل اہمیت قدیم دور ہی کی ہے۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ تاریخ کا پہیہ 14 ویں صدی کے دوران کہیں رک گیا ہے اور اب اس کی مرمت کے منصوبوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سب سے زیادہ مروجہ نقطہ نظر میں سائنس کا مقصد تنقیدی سوچ اور آگاہی، تخلیقی غیر یقینیت یا لامتناہی کھوج نہیں ہے۔ ایسی ویب سائٹس یا مکالماتی گروہ ناپید ہیں جن میں مسلم نقطہ نظر سے نظریہ اضافیت، کوانٹم مکینکس، تخریب (Chaos) کا نظریہ، سپر سٹرنگ تھیوری، سٹیم سیل اور دیگر عصری سائنسی مسائل کے فلسفیانہ مضمرات پر بات ہوتی ہو۔

اسی طرح مسلم ممالک کے ذرائع ابلاغ میں 'اسلام اور سائنس' پر بحث عام ہے مگر یہ اس حد تک ہی برداشت ہوتی ہے جب تک کہ پہلے سے قائم شدہ عقائد کی ازسرنو تصدیق کی جائے، نا کہ انہیں چیلنج کیا جائے۔ جب 2005 میں پاکستان میں زلزلہ آیا جس میں 90 ہزار سے زیادہ افراد مارے گئے تو اس وقت ملک کے کسی بڑے سائنس دان نے عوامی سطح پر اس عقیدے کو چیلنج نہیں کیا کہ زلزلہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے خدا کی سزا تھی جبکہ تمام ذرائع ابلاغ پر آزادانہ طور سے اس عقیدے کا پرچار کیا جا رہا تھا۔ ملاؤں نے اس بات کا مذاق اڑایا کہ سائنس اس کی وضاحت فراہم کر سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو اکسایا کہ ٹیلی وژن سیٹ توڑے جائیں کیونکہ اس کی وجہ سے اللہ کا غضب بھڑکا تھا اور اسی وجہ سے زلزلہ آیا۔ جیسا کہ میری کلاس میں ہونے والی بیش تر گفتگو سے معلوم ہوا کہ میری یونیورسٹی کے سائنس کے طلبہ کی ایک بڑی اکثریت نے عذاب الہیٰ کی وضاحت ہی قبول کی۔

جاری ہے۔۔۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم ایک ماہرِ طبیعیات اور لکھاری ہیں۔