وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ اور تعلیمی بجٹ: عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں

وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا منصوبہ اور تعلیمی بجٹ: عوام ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاست کا محور کرپشن سے پاک پاکستان کو بنایا تھا۔ ان کا ہمیشہ سے یہ بیانیہ رہا تھا کہ سیاستدانوں کی عیش و عشرت کی زندگیاں قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور حکمرانوں کو اپنے اللّے تللّوں پر عوام کے ٹیکسوں سے اکٹھے کیے گئے پیسے خرچ کرنے کے بجائے یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنی چاہیے۔ شاید ہی پاکستان میں کوئی شخص ہوگا جو اس خیال سے اختلاف کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو بطور وزیر اعظم elect اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس کو اس ایک بہترین سطح کی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیں گے۔

انہوں نے اس کے علاوہ بھی سادگی اپنانے کے کئی طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ مثلاً وزیر اعظم ہاؤس کی luxury گاڑیاں بیچ دی گئیں، وہاں پالی ہوئی بھینسوں کو بھی نیلام کر دیا گیا اور کئی ملازمین کو وزیر اعظم ہاؤس سے کم کر کے دیگر محکموں یا سرکاری دفتروں کے حوالے کر دیا گیا۔
حکومت میں آنے کے قریب ایک سال آٹھ مہینے بعد گذشتہ ماہ فواد چودھری صاحب نے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کے حوالے سے ایک بل پارلیمنٹ میں جمع کروایا ہے اور اب یہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جا چکا ہے۔
اس فیصلے کو قومی سطح پر سراہا گیا ہے لیکن پہلے دن سے ہی اس حوالے سے شکوک و شبہات بھی موجود ہیں جن کا مختلف طریقوں سے اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ ایک سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ Red Zone کے اندر کوئی یونیورسٹی بنانا ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ جگہ سکیورٹی کے نکتہ نگاہ سے انتہائی اہم ہے اور یہاں یونیورسٹی بنانے سے وزیر اعظم اور انتہائی اہم عہدیداروں کے ساتھ ساتھ Red Zone میں واقع غیر ملکی سفارتخانوں اور پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ کو دہشتگردی کا نشانہ بنانا ممکن ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف وہ افراد بھی ہیں جنہوں نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا کہ آخر وزیر اعظم ہاؤس ہی کو یونیورسٹی بنانا کیوں ضروری ہے؟ اول تو اس ملک میں اور بھی کئی عمارتیں ہیں جو غیر ضروری طور پر بے تحاشہ علاقہ گھیرے ہوئے ہیں۔ سرکاری ملازمین کے گھروں اور ریاستی اداروں کی ملکیت زمینوں کو ایک طرف رکھیے، بہت سی زمین ہاؤسنگ سکیموں کے لئے مختص کر دی جاتی ہے جہاں معاشرے کے امیر ترین افراد ہی گھر بنا سکتے ہیں۔ وہاں عوام کے لئے کوئی یونیورسٹی بنانے کی جگہ مختص کیوں نہیں کر دی جاتی؟
لیکن اس سے بھی اہم سوال ہے حکمرانوں کی ملکی مسائل سے متعلق سمجھ بوجھ کا۔ کیا ان کا خیال یہ ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ پائے کی ریسرچ اس لئے نہیں ہو رہی کہ یہاں یونیورسٹی کے لئے جگہ نہیں ہے؟ یا پھر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت تعلیم اور ریسرچ کا بجٹ نہ ہونے کے برابر رکھتی ہے؟ عوامی بہبود، تاریخ اور anthropology سے متعلق کئی مسائل ہیں جن پر ریسرچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ وہی سیاسی جماعت جو وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا عزم لے کر حکومت میں آئی تھی، اس نے اپنے پہلے بجٹ میں ہائر ایجوکیشن کا بجٹ 45 فیصد کم کر دیا۔ تو کیا وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا مقصد تعلیم کا معیار بہتر کرنا تھا یا پھر سابق حکمرانوں کی کردار کشی ہی اصل مطمع نظر تھا جس کے لئے اس وقت میڈیا کو استعمال کیا گیا اور اب نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔

حکمرانوں کو تعلیم، صحت اور عوامی فلاح کے دیگر معاملات پر سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا چاہیے۔ ملک کے جمہوری اداروں کی تضحیک اگر مقصد نہیں، تو پھر ریسرچ کو ترقی دینے کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں، حکومت کو خود تعلیم کا اور خصوصاً ہائر ایجوکیشن کا بجٹ بڑھانا ہوگا اور نجی اداروں کو بھی ترغیب دینا ہوگی کہ وہ ریسرچ میں پیسہ لگائیں۔ اب سے چند ہی روز قبل تحریکِ انصاف رہنما جہانگیر ترین صاحب نے ندیم ملک کے پروگرام میں کہا کہ کپاس کی کاشت انہوں نے اس لئے چھوڑ دی کہ پچھلے دس سال میں کپاس کے اوپر حکومتوں نے ریسرچ کرنے کے لئے کوئی رقم ہی نہیں لگائی۔

ندیم ملک صاحب نے پوچھا کہ پچھلے ڈیڑھ سے دو سال سے تو خود ترین صاحب بھی اس محکمے پر غور و فکر فرما رہے ہیں، تو پھر انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا؟ ظاہر ہے کہ ترین صاحب کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا لہٰذا انہوں نے وہی گھسا پٹا جواب دے دیا کہ ڈیڑھ سال میں دس سالوں کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ انہوں نے شروعات بھی نہ کی۔ بلکہ حکومت میں آنے کے فوراً بعد ایک شوگر مل خرید لی۔ کپاس کے لئے بہترین زمین جنوبی پنجاب میں ہے لیکن وہاں چینی کے کارخانے لگا لگا کر ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے نے کپاس کا بیڑا غرق کر دیا ہے جو کہ ملک کی سب سے اہم ترین برآمد کی جانے والی جنس ہے۔ لیکن اینکر نے ان سے یہ سوال نہیں کیا۔ نہ ہی یہ پوچھا کہ حضور آپ خود کہہ رہے ہیں کہ اربوں روپے ٹیکس دیتے ہیں، تو کیا زرعی یونیورسٹی یا کسی بھی اور یونیورسٹی میں کپاس کو لگنے والے کیڑوں سے متعلق جو مسائل آپ گنوا رہے ہیں، ان پر تحقیق کرنے کے لئے دو سے تین طلبہ کی PhD فنڈ نہیں کر سکتے تھے؟ اور ترین صاحب اس کام میں اکیلے نہیں۔ اس سے پہلے جو حکمران رہے ہیں، انہیں بھی اس سلسلے میں کچھ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ جنرل مشرف اور نواز شریف دور میں ہائر ایجوکیشن کا بجٹ بڑھایا گیا لیکن کپاس کے لئے کچھ نہیں کیا گیا کیونکہ شریف خاندان خود چینی کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ بلکہ چینی کے کارخانے جنوبی پنجاب لے جانے کی شروعات ہی شریف خاندان نے کی تھی۔

ہمارا حکمران طبقہ عوام کو بیوقوف بنانے اور اپنے کاروبار چمکانے کے علاوہ کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتا۔ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے والا شوشہ بھی اسی قسم کی ایک ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے عوام کو لگا کر یہ حکمران ہیلی کاپٹروں میں گھومتے ہیں۔ یہ منصوبہ تکمیل کو پہنچے یا نہ پہنچے، عوام کو حکمرانوں سے یہ سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت نے تعلیم اور تحقیق پر کتنا بجٹ خرچ کیا۔ اسے پہلے سے بڑھایا یا نہیں۔ طلبہ کو تحقیق کی آزادی دی یا نہیں۔ نجی اداروں کو ریسرچ فنڈ کرنے کی ترغیب دی یا نہیں۔ اگر ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں تو وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت تعلیم کو اپنی اہمیت بنا لے، اگلے ماہ آنے والے بجٹ میں اس کے لئے خطیر رقم مختص کرے۔ یہی پاکستان کی ترقی کا رستہ ہے اور یہی عوام کی زندگیاں بہتر کرنے کی کنجی۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.