Get Alerts

'لوگ مذاق اُڑاتے تھے کہ یہ ٹرک گرا دے گی' تھرپارکر کی خواتین ٹرک ڈرائیورز کیسے بنیں؟

'لوگ مذاق اُڑاتے تھے کہ یہ ٹرک گرا دے گی' تھرپارکر کی خواتین ٹرک ڈرائیورز کیسے بنیں؟
جمی کا تعلق صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کی تحصیل مٹھی سے ہے اور وہ تین بچوں کی ماں ہے۔ کچھ سال پہلے تک جمی اور ان کے بچوں کی حالت معاشی طور پر اسودہ حال نہیں تھی اور ان کے شوہر کی محنت مزدوری سے گھر کا نظام مشکل چل رہا تھا۔ جمی کہتی ہے کہ معاشی تنگدستی نے زندگی کو مشکل بنا دیا تھا اورگھر کے معاملات بہت مشکل سے چل رہے تھے لیکن پھر ڈمپر ٹرک ڈرائیور بننے کے لئے نوکریاں آئیں اور میں نے بھی درخواست دے دی، منتخب ہونے کے بعد ایک سالہ تربیت حاصل کی اور اب یہاں ٹرک ڈرائیور ہوں۔

'تھرکول منصوبے میں 30 کے لگ بھگ خواتین ڈرائیورز ہیں'

جمی سندھ کے تھرکول منصوبے میں دیگر خواتین ڈرائیورز کے ساتھ صبح سات بجے سے دوپہر تین بجے تک کام کرتی ہے۔ تھرکول منصوبے کے حکام کے مطابق اس منصوبے میں 120 کے لگ بھگ ٹرک ڈرائیوروں کو نوکریاں دی گئی ہیں جن میں 30 کے لگ بھگ خواتین ڈرائیورز ہیں۔



بھارتی سرحد کے قریب واقع سندھ کے صحرائے تھرمیں ایک اندازے کے مطابق 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ جن علاقوں میں کوئلہ نکالا جا رہا ہے وہاں بڑی تعداد میں زرد رنگ کے ڈمپر ٹرک دکھائی دیتے ہیں

تھر میں کوئلے کے ذخائر کا شمار دنیا کے 16 بڑے ذخائر میں ہوتا ہے جو جیولوجیکل سروے آف پاکستان اور یونائٹیڈ سٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیویلپمنٹ کے اشتراک سے 1991 میں دریافت ہوئے تھے۔ 9 ہزار کلو میٹر پر محیط یہ رقبہ کوئلے کے 175 ارب ٹن ذخائر سے مالامال ہے۔ اس منصوبے کا افتتاح اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کیا تھا اور سرکاری اعداد و شمار کےمطابق اس منصوبے سے تھر کے عوام کو روزگار کے مواقع ملے ہیں۔

'ٹرک ڈرائیور بننے کافیصلہ میں نے خود کیا تھا'

جمی کا کہنا ہے کہ ٹرک ڈرائیور بننے کافیصلہ میں نے خود کیا تھا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا اتنا سماجی دباؤ آئے گا۔ گاؤں کے مرد کہتے تھے کہ گاؤں میں مردوں کی اتنی کثیر تعداد کے باوجود بھی اگر عورتوں کو بھرتی کیا جائے گا تو اس میں ضرور کوئی سازش ہوگی، ضرور یہ خواتین کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے۔ لیکن جو خواتین ڈرائیونگ سیکھنے گئی تھیں، انھوں نے ہمیں بتایا کہ بہت اچھا ماحول ہے۔ آپ لوگ جائیں اور بچوں کے لئے رزق کمالو لہذا میں نے بھی لوگوں کی باتوں کی پروا کئے بغیر ٹرک ڈرائیور بننے کا فیصلہ کیا اور آج ہمارا گھرانہ بہت خوشحال ہے۔



'وہ ہمارا مزاق اُڑاتے تھے لیکن ہم نے ہمت کی'

جمی کا کہنا ہے کہ گاؤں اور گھر کے لوگ حیران تھے کہ خاتون کیسے اتنے بڑے ٹرک چلا لے گی، وہ ہمارا مزاق اُڑاتے تھے لیکن ہم نے ہمت کی ، یہاں ٹیسٹ دیا اور منتخب ہوگئیں۔ ہم نے ثابت کیا کہ خواتین بھی اچھی ٹرک ڈرائیور بن سکتی ہیں۔

جمی کے مطابق ٹرک ڈرائیور بننے سے پہلے میرے بچوں کی تعلیم ، کھانے اور کپڑوں کا حال اتنا اچھا نہیں تھا مگر اب شکر ہے کہ مجھے 25 سے 30 ہزار تک کی مزدوری مل جاتی ہے اور میرا گھرانہ بہت خوشحال ہے۔

تھرکول کے اس منصوبےمیں تقریباً 30 خاتون ڈرائیورز کام کرتی ہیں اور ان کو خصوصی بسوں کے زریعے روزانہ کی بنیاد پر پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دی جاتی ہے تاکہ یہ لوگ آسانی سے اپنے کام کو جاری رکھ سکیں۔

' خواتین کو بطور ڈرائیور شامل کرنا اتنا اسان کام نہیں تھا کیونکہ مقامی طور پر لوگ اس کے مخالف تھے'

تھرکول منصوبے سے منسلک عہدیدار نصیر میمن نے بتایا کہ اس منصوبے میں خواتین کو بطور ڈرائیور شامل کرنا اتنا اسان کام نہیں تھا کیونکہ مقامی طور پر لوگ اس کے مخالف تھے مگر سندھ حکومت کی خواہش تھی کہ خواتین کو ہر صورت بااختیار بنانا ہے تو پھر ہم نے اُس فیصلے کو عملی جامہ پہنانا تھا۔

'وزیراعلیٰ سندھ ٹرک میں خواتین ڈرائیورز کے ساتھ بیٹھے'

ان کے مطابق اس منصوبے میں نہ صرف خواتین ڈرائیورز ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے دیگر شعبوں میں بھی خواتین کام کررہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے خود یہاں کا دورہ کیا ، ٹرک میں خواتین ڈرائیورز کے ساتھ بیٹھے، اُن کی ہمت باندھی اور اُن کو حوصلہ دیا۔

انھوں نے بتایا کہا کہ ان خواتین کو نوکریوں کے علاوہ دیگر سہولیات بھی دی گئی ہیں اور اگر دوران ڈیوٹی کوئی زخمی ہو یا دیگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو ان کو پانچ سال تک ماہانہ تنخواہ دی جائے گی۔ نصیر میمن کے مطابق اس منصوبے میں برابری رکھی گئی ہے اور جو کھانا ایک افسر کو ملتا ہے وہی کھانا ڈرائیور اور مزدور کو ملتا ہے کیونکہ ہم ہر حوالے سے ایک مثال قائم کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق لوگ احتجاج بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اس منصوبے میں نوکریاں نہیں دی گئی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی جو مقامی آبادی ہے ان میں جو تعلیم یافتہ افراد ہیں ان کو اچھی جگہوں پر نوکریاں دی گئی ہیں اور ظاہر سی بات ہے جن کے پاس کوئی ڈگری یا ہنر نہیں تو ان کو مزدوری پر رکھا گیا ہے۔ لیکن تمام لوگوں کو نوکریاں دینا ہمارے بس کا کام نہیں لیکن قوانین کے مطابق 60 سے 70 فیصد نوکریاں مقامی لوگوں کو ہی دی گئی ہیں۔

سینگاری بائی کا تعلق بھی مٹھی کے چھوٹے سے گاؤں سے ہے اور ان کے لئے ٹرک ڈرائیور کا فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ لوگوں نے حکومت کی جانب سے خواتین کو ٹرک ڈرائیورز بھرتی کرنے کے فیصلے کا نہ صرف مزاق اُڑایا بلکہ تنقید بھی کی۔



سینگاری بائی کی عمر پینتالیس سال کے لگ بھگ ہے اور وہ آج کل تھرکول منصوبے میں بطور ڈرائیور کام کررہی ہیں۔ ان کے مطابق اُن کا گاؤں تھرکول سائٹ سے 8 کلومیٹر دور ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر صبح سویرے یہاں کام کرنے آتی ہیں۔ ان کے مطابق اخبار میں جب بھرتی ہونے کا اشتہار آیا تو میں نے بھی گاؤں کی دیگر خواتین کی ہمت باندھی اور ہم سب نے فارم بھر کر نوکری میں جانے کی حامی بھری اور لوگوں کی بے بنیاد باتوں (جیسا کہ یہ ٹرک کو پہاڑ سے گرادیگی ، یہ واپس آئے گی ٹرک نہیں چلا سکتی) کے باوجود ہم نے کام شروع کیا اور آج ثابت ہوا کہ ہم ٹرک ڈرائیورز سمیت کوئی بھی کام کرسکتی ہیں۔

'اب جب ہم نے خود کو ثابت کیا تو لوگ اب کچھ نہیں کہتے اور خاموش ہوگئے'

سینگاری بائی کے مطابق ہمیں گھر کی چوکھٹ پر مزدوری ملی ہے اور اچھی مزدوری ہے کیونکہ ہم کام بھی کررہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی کرتے ہیں۔ سینگاری بائی کا کہنا ہے کہ اب جب ہم نے خود کو ثابت کیا تو لوگ اب کچھ نہیں کہتے اور خاموش ہوگئے لیکن ان نوکریوں سے ہماری زندگیوں پر بہت اچھا اثر پڑا ہے اور ہمارے خاندان والوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔