بھٹو خاندان ایک کے بعد ایک نیا المیہ کیسے دیکھتا اور بھگتتا ہے۔ ووٹ دینے اور ووٹ لینے والوں کی عزت بچانے اور بڑھانے والی جدوجہد کا بنیاد رکھنے والے بھٹو خاندان کے افراد پر جمہوری جنگ کے دوران کیا کیا گزری اور ایسی تلخ اور ممنوع باتیں کرنے کی انہوں نے کیا قیمت چکائی، یہ سب کچھ جاننے کے لیے نیا دور کے رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی نے بھٹو خاندان کی نشانی صنم بھٹو سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر حال ہی میں بات چیت کی ہے۔ اس انٹرویو کے دوران بھٹو خاندانی کی کہانی بیان کرتے ہوئے ہنستے ہنستے صنم کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
بھٹو کی زندہ بچ جانے والی آخری بیٹی بتاتی ہیں کہ ان کو وطن عزیز میں صرف دکھ سہنے کا تجربہ رہا ہے۔ ہر آنے والی آزمائش گزشتہ آزمائش سے مشکل رہی ہے۔ پھانسی، جلاوطنی، زہر، گولی اور مسلسل میڈیا کے توپوں کے سامنے رہنے والے بھٹو خاندان کی وارث صنم بھٹو کی کہانی سن کر انٹرویو لینے والے مرتضیٰ سولنگی اور رضا رومی کی بھی آنکھیں نم اور گلا خشک ہو گیا۔ صنم بڑے پیار سے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو، ماں بیگم نصرت بھٹو، بہن بینظیر بھٹو، بھائی مرتضٰی اور شاہنواز کی باتیں بتا رہی تھیں۔ بقول ان کے خاندان کے سب افراد کو اکٹھا رہنے کا مواقع کبھی نصیب ہونے نہ دیا گیا۔
وہ کہتی ہیں ضیاء مارشل لا کے دوران اخبارات میں بھٹو لکھنا بھی منع تھا۔ اپنی شادی کی خبر کا حوالہ دیکر کہتی ہیں کہ ان کی شادی کی خبر کی سرخی یوں بنائی گئی کہ ان کے نام کی خبر میں بھی بھٹو نہیں لکھا گیا۔ اس دور کی ظالم سرکار بھٹو خاندان کو تکالیف دینے اور اس کی زندگی تنگ کرنے کے لیے قوانین کا سہارا لیتی تھی انکی والدہ بیگم نصرت اور بہن بینظیر بھٹو ان قوانین کے نشانے پر رہیں اور انکی پوری زندگی جبر اور ظلم و جبر کا سامنا کرتے گزری۔
وہ کہتی ہیں میرے بھائی انیس، بیس سال کے تھے ان کو ریاست، سیاست اور جنگ کے معاملات کا کچھ پتہ نہ تھا ان کے جذبات کا غلط استعمال ہوا۔ بقول ان کے بھٹو جیسا ذہین باپ کیسے چاہے گا کہ میرے نوجوان بیٹے میرا بدلا لیں یا میری جان بچانے کے لیے لڑیں وہ بھی اتنی بڑی اور طاقتور فوج سے۔
صنم کہتی ہیں یہ سب بنائی گئی باتیں تھیں، بھٹوز کے خلاف کہانیاں بنانے والوں کا ہی یہ کمال تھا۔ صنم نے بتایا ان کے بھائی اپنے والد کے ٹرائل کے دوران دیار غیر میں دربدر رہے، ان سے خاندان والوں کا خاص رابطہ بھی نہ تھا۔ بیگم نصرت اور بینظیر بھٹو جیل میں تھیں یا نظر بند۔ ریاست کے تمام ادارے ان کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔
صنم بھٹو اپنی المیاتی کہانی سناتے ہوئے روتی ہیں ، کبھی اپنے نوجوان بھائی شاہنواز کے نام پرسسکیاں لیتی رہیں تو کبھی مرتضیٰ کا نام آنے پر ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اپنی بہن بینظیر کا ذکر کرتے کہتی ہیں کہ میں بینظیر کو روکتی رہی کہ پاکستان مت جاؤ، بینظیر پاکستان گئی اور پھر اسے بھی شہید کردیا گیا۔
آج جومفاد پرستوں کی پی پی پی ہے، جو بھٹوز کے نام اور نعرے کی سیاست کرتی ہے کیا آج کی پی پی پی میں بیٹھے اکثر لوگ صنم بھٹو کی زبانی بھٹو خاندان کے افراد کے دکھ درد سننا پسند کریں گے۔
بھٹو خاندان نے ان کی غربت کم کرنے یا ان کے خاندان کی ترقی کے لیے یہ دکھ نہیں جھیلے تھے۔ جس خلق خدا کی زندگیاں تبدیل کرنے کے لیے بھٹو اور خاندان کے باقی افراد ظلمتوں کے زد میں رہے۔ آج کی پی پی پی میں بیٹھے لوگوں میں سے اکثر اس ہی خلق خدا کے دکھوں میں اضافے کا سبب ہیں۔ سماج کے دکھی اور پیسے ہوے طبقات کو حقوق دلانے کے لیے جو پی پی پی بنی تھی، پیپلز پارٹی کی جس سیاست کی وجہ سے بھٹوز سولی پر چڑھے یا روز سولی چڑھنے کی آزمائش سے گزرے۔ آج کی پیپلز پارٹی نے اس سیاست سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا ہے۔
صنم بھٹو کی آنکھوں سے بہنے والے ہر ایک آنسو کی قسم آج کی پی پی پی سندھ میں صرف وڈیروں کے بیٹے اور بیٹیوں کی ترقی کی ضمانت ہے۔ وڈیرا ایم این اے یا ایم پی ای ہوگا، بیٹا سابقہ ضلعی چیئرمین ہوگا، خواب سینیٹر بننے کے دیکھ رہا ہوگا۔ ان کے ہی خاندان کے فرد مدر پارٹی کے عہدوں پر قابض ہونگے۔ اگر کسی کو بلکل نظر انداز کر دیا گیا ہوگا تو ان کے خاندان کو مقامی سول ہسپتال، مال مویشی منڈی سے ہر ہفتے اور مہینے خرچہ چلانے کی سہولت ضرور مہیا کی جا رہی ہوگی۔ پیپلز پارٹی جن لوگوں کی قسمت بدلنے کے لیے بنائی گئی تھی، جن لوگوں کے لیے بھٹوز نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی تھی ان بینظیروں اور بلاولوں کے آج بھی پاؤں ننگے ہیں۔
صنم بھٹو سے معزرت کے ساتھ آج کی پیپلز پارٹی بھٹو برانڈ کے نام پر سیاست ضرور کر رہی ہے مگر سیاست اینٹی بھٹوز روایات اور خیالات کی کر رہی ہے۔