ہم نہ جانے کب آزاد ہوں گے اور اپنے فیصلے خود کریں گے، یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے

ہم نہ جانے کب آزاد ہوں گے اور اپنے فیصلے خود کریں گے، یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے
کہانی کار اور شاعر کے بارے میں مرزا غالب فرما گئے تھے کہ ''آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں، غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے''۔ کیا خوب کہا ہے مرزا نوشہ نے۔ بڑا ادیب اور فکشن لکھنے والا وہی ہوتا ہے جو سماجی حقیقت نگاری کرنے کا ہنر جانتا ہو جس کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہو اور اس کو پکڑتے ہی تمام خامیاں خوبیاں نفسیات اور مائنڈ سیٹ کو اپنے قلم کے ذریعے من وعن لکھ دے۔

ہاں لکھتے وقت ادبی کسوٹی اور فکشن کے تمام لوازمات پورے ہوں تاکہ کہانی اور رپورٹ میں فرق نظر آئے۔ وطن عزیز کے جو دگرگوں سیاسی حالات ہیں، بطور ایک صحافی اور مصنف کے جب میں دیار غیر میں بیٹھ کر دیکھتا ہوں تو بہت دل دکھی ہوتا ہے۔ ایک آزاد ملک اور فلاحی ریاست میں بیٹھے ضمیر ملامت بھی کرتا ہے کہ مادر وطن میں کیا ہو رہا ہے اور میرے ہم وطن کس ذہنی کرب سے گزر رہے ہیں۔

وہ کہنے کو ایک آزاد ملک ہے مگر اسکی ہیت مقتدرہ ریاستی مشینری کسی اور کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ یہ ساری صورتحال وطن عزیز کے دو بڑے فکشن لکھنے والے دو سال پہلے بیان کر چکے ہیں۔ آج مجھے حفیظ خان صاحب کا ناول ''منتارا'' اور خالد فتح محمد صاحب کا ناول ''وقت کی باگ'' بہت یاد آ رہا ہے۔

ان دونوں فکشن لکھنے والوں نے کیا خوب سماجی وقائع نگاری کی ہے اور معاشرتی سیاسی سچ کو کیسے ادب عالیہ کے رموز اوقاف میں پرو کر ایک اعلیٰ پائے کا فکشن تحلیق کیا ہے۔

حفیظ خان کے ناول ''منتارا'' میں یہ سب دو سال پہلے ہی بتا دیا تھا کہ غلاموں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ وہاں کیسے حکومتیں بنائی جاتی ہیں؟ کیسے گرائی جاتی ہیں؟ کہنے کو ہم ایک آزاد ملک ییں لیکن ہمارے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔

ذرا دیکھیں ناول ''منتارا'' میں انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد، حکومت اور حزب اختلاف کا کردار میڈیا ہاؤسز کے مفادات سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی اپنے آقاؤں سے وابستگی، وکلاء تنظیموں کے طرزِ عمل، عدلیہ، مقننہ اور عسکری قیادت طریقہ واردات کو کس مہارت سے بیان کیا۔

یوں لگتا ہے جیسے جو کچھ آج وطن عزیز کے سیاسی منظر نامے پر ہو رہا ہے اس کے پس منظر کے کرداروں نے وہ ناول پڑھ کر یہ سب شروع کیا ہے۔ موجودہ سکرپٹ رائٹر نے ناول منتارا کا پلاٹ چرا کر اپنے سکرپٹ کو لکھا ہے اور ہدایت کار نے عملی شکل دے دی ہے۔

یہ ناول منتارا ایک کلاسیک ہے اُردو ادب میں اپنی طرز کا پہلا ناول ہے۔ دوسرے ناول ''وقت کی باگ'' جس کو خالد فتح محمد نے لکھا ہے وہ بھی ہماری عسکری تاریخ کا ایک کردار ہیں جو اب ایک نفرت کی علامت بن چکا ہے۔ اس کردار کو ہم پر مسلط کرنے والے چچا سام کو اس ناول میں بہت خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ کیسے چچا سام اپنے محکوم قوموں کی زندگی کے فیصلے کرتا ہے جس طرح آج کا چچا سام کے ایک اہلکار کے مراسلے کا ذکر تواتر سے ہو رہا ہے۔ خالد فتح محمد کا ناول وقت کی باگ پڑھ کر سمجھ آ جاتی ہے کہ کیسے چچا سام ہمارے جیسے غلام ملکوں اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کے ذریعے حکومت کرتا ہے۔ حرف آخر یہ دونوں ناول اُردو فکشن میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں نہ جانے کب ہم آزاد ہوں گہ اور اپنے فیصلے خود کریں گے یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔