یہ جون 1947 کا ایک عام سا دن تھا، جب موسیقار نوشاد، سٹوڈیو جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ ایسے میں ملازم آیا جس نے بتایا کہ کوئی لڑکی ہے جو اُن سے ملاقات کی خواہش مند ہے۔ نوشاد صاحب کو اندازہ تھا کہ ہوگی کوئی لڑکی جو بھارتی فلموں میں قسمت آزمانے کے لئے ان کی سفارش چاہتی ہوگی، کیونکہ اُس دور میں بیشتر لڑکیاں دن و رات بس آنکھوں میں ہیروئن بننے کے سپنے دیکھتی تھیں۔ اسی خیال کے پیش نظر نوشاد صاحب نے ملازم سے اُسے کسی اور وقت آنے کو کہا، لیکن ملازم کا کہنا تھا کہ وہ ضد کرے بیٹھی ہے کہ آج مل کر ہی جائے گی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
نوشاد صاحب نے بادل نخواستہ اُسے بلانے کا حکم دیا تو چند ہی لمحوں میں واجبی شکل و صورت والی 23، 24 برس کی لڑکی کھڑی تھی، چہرے کے خد و خال اور قد و قامت کسی صورت اس دور کی ہیروئن والے نہیں تھے۔ نوشاد صاحب نے ناگواری کے ساتھ آنے کی وجہ دریافت کی تو لڑکی نے کہا کہ وہ ان کی کمپوزیشن میں تیار کوئی بھی گیت گانا چاہتی ہے۔ نوشاد صاحب کے چہرے پر اب مسکراہٹ کا بسیرا تھا اور وہ انتہائی دلچسپی کے ساتھ اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو اداکاری نہیں گلوکاری میں قسمت آزمانے کے ارمان دل میں لئے بیٹھی تھیں۔ ’تمہارا نام کیا ہے بی بی؟ اور کہیں سے گانے کی تربیت لی ہے؟ راگ وغیر ہ سے واقفیت ہے؟‘
یہ نوشاد صاحب کے پے در پے سوال تھے۔ جس پر اجنبی لڑکی نے انتہائی فخریہ انداز میں اپنے نام اوما دیوی کھتری بتایا لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ ریڈیو پر گانے سن سن کر وہ اچھی خاصی گلوکارہ بن گئی ہے۔ نوشاد صاحب نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ تربیت لی، نہ تجربہ ہے تو میں کیوں تمہیں اپنی کمپوزیشن پر پس پردہ گلوکاری کا موقع دوں؟ اوما دیوی نے کرسی سے اٹھتے ہوئے بس یہی کہا ’سوچ لیں اگر موقع نہ دیا تو آپ کے گھر کے سامنے جو سمندرہے نا اُس میں ڈوب کر جان دے دوں گی۔۔‘
یہ دھمکی تھی یا التجا جس کو سن کر نوشاد صاحب چند لمحے کے لئے ہکا بکا رہ گئے۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اسے کچھ سنانے کو کہا تو اوما دیوی نے ایک دو فلمی گیت بڑی ترنگ اور لے میں گنگنا دیے۔ نوشاد صاحب کو محسوس ہوا کہ لڑکی کی آواز پُرسوز اور مسحور کن ہے۔ جبھی اسے پرچے پر اپنے دفتر کا پتا لکھ کر دیتے ہوئے ملنے کا کہا۔
چند دنوں بعد ہی اوما دیوی کی ملاقات نوشاد صاحب نے ہدایتکار اور پروڈیوسر اے آر کاردار سے کروا دی جو ان دنوں ’درد‘ نامی فلم بنا رہے تھے۔ نوشاد صاحب نے اوما دیوی کو ’درد‘ میں متعارف کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس پر اے آر کاردار کو تھوڑا اعتراض تھا۔ لیکن جب خود انہوں نے اوما دیوی سے گانے سنے تو وہ بھی نوشاد صاحب کے ہم خیال ہو گئے۔ ریہرسلز ہوئیں اور نوشاد صاحب کی نگرانی میں اس کی آواز میں اور نکھار لایا گیا۔ نوشاد صاحب کی کمپوزیشن میں تیار اس فلم میں اوما دیوی نے کوئی چار گانے گائے۔ ان میں آج مچی ہے دھوم، میری آنکھوں میں سما کر یہ کون چلا، اور بے تاب ہے دل درد محبت کے اثر سے، کے علاوہ اداکارہ منور سلطانہ پر فلمایا گیا ’افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا‘ بھی شامل تھا جس نے اوما دیوی کو شہرت کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیا۔ ہرکوئی اوما دیوی کے گن گا رہا تھا۔ سمجھیں کہ اوما دیوی کی دھوم مچی تھی اور ادھر نوشاد صاحب مسرور تھے کہ ان کا فیصلہ درست ہی رہا۔ اس گیت کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے سن کر ایک نوجوان موہن، دہلی سے ممبئی پہنچ گیا اور اوما دیوی کو شریک سفر بنانے کی آرزو ظاہر کی جسے وہ رد نہ کر سکیں۔
اوما دیوی اب اے آر کاردار کے پروڈکشن ہاؤس میں باقاعدہ ملازم ہو گئی تھیں اور مختلف فلموں کے لئے گلوکاری کرتی رہتیں۔ یوں اوما دیوی، نورجہاں، راج کماری، خورشید بانو اور دیگر مستند گلوکاروں کی فہرست میں شمار ہونے لگیں۔ لیکن اسی دوران فلمی موسیقی میں ایک نیا رحجان آنے لگا۔ پرانی طرزِ گلوکاری کو خیر باد کہہ کر نت نئے تجربات ہونے لگے، جن کی وجہ سے لتا منگیشکر کو اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا۔ اس تناظر میں اوما دیوی کا انداز گلوکاری قدیم لگنے لگا۔ پروڈیوسرز نے کام دینا بند کر دیا اور نوبت مالی مسائل تک پہنچ گئی۔ گھر پر بیٹھے بیٹھے اوما دیوی کا وزن بڑھنے لگا، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے ڈھنگی ہونے لگیں۔
تھک ہار کر ایک بار پھر اپنے محسن اور راکھی بند بھائی نوشاد صاحب کا در کھٹکھٹایا۔ جن کا کہنا تھا کہ اب ان کی گلوکاری کی فلموں میں کوئی جگہ نہیں بن پا رہی۔ وہ آخر اداکاری کی طرف کیوں نہیں آتیں۔ اوما دیوی نے ایک بار پھر اپنی خواہش بتا کر نوشاد صاحب کو حیران کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اداکاری کی تو دلیپ کمار کے ساتھ ہی کروں گی ورنہ بھوکی ہی مر جاؤں گی۔ جس پر نوشاد صاحب مسکرائے، وہ ان دنوں ’بابل‘ پروڈیوس کر رہے تھے اور اوما دیوی کی اس آرزو کو بھی انہوں نے پورا کرتے ہوئے ’بابل‘ میں دلیپ کمار کے مقابل لا کھڑ ا کیا۔
اس مختصر سے کردار کے دوران انہوں نے ایسی اوٹ پٹانگ سے بھری مزاحیہ اداکاری کی کہ ہر کوئی لوٹ پوٹ ہو گیا۔ بھاری بھرکم جسامت اور عجیب و غریب انداز دیکھ کر دلیپ کمار نے اوما دیوی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا نام ’ٹُن ٹُن‘ رکھ لیں۔ اوما دیوی نے دلیپ کمار کی بات گرہ سے باندھی اور پھر اسی نام سے فلموں میں کام کرنے لگیں۔ جو اپنی مزاحیہ، برجستہ اداکاری، چہرے کے بنتے بگڑتے عجیب و غریب تاثرات اور فربہ مائل سراپے کی بنا پر جب جب سکرین پر آتیں، فلم بین کے چہرے کھکھلا اٹھتے۔ اوما دیوی سے ’ٹُن ٹُن‘ بننے والی اس اداکارہ نے پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ پیاسا، آبرو، اڑن کھٹولا، کوہ نور، قربانی، نمک حلال، سی آئی ڈی سمیت دو سو کے قریب فلموں میں کام کر گئیں۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وہ بھارتی فلموں کی پہلی خاتون کامیڈین ہونے کا درجہ رکھتی تھیں۔ بھاری بھرکم خواتین کو چھیڑنے کے لئے لوگ بے اختیار ’ٹُن ٹُن‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ یعنی وہ ایک مثال بن گئیں۔ جن کے لئے خاص طور پر کردار لکھوائے جاتے۔
چاہنے والوں کے دلوں کو گداز اور مسکرانے والی‘ ٹُن ٹُن‘ کی نجی زندگی پر نگاہ ڈالی جائے تو وہاں کرب اور تکلیف کے کئی طوفان برپا ہوئے۔ اتر پردیش کے چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولنے والی ٹُن ٹُن کے والدین کو زمین کے تنازعے پر اُس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ بمشکل دو سال کی تھیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ان کے اکلوتے بڑے بھائی کو بھی خون میں نہلا دیا گیا۔ جس کے بعد ان کی پرورش چچا نے کی۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اداکارہ بننے کے بجائے گلوکارہ بننے کی آرزو دل میں مچلنے لگی۔ جبھی چچا کو بتائے بغیر وہ سہیلی کی مدد سے ممبئی پہنچی تھیں جہاں ان کی پہلی ملاقات نوشاد صاحب سے ہوئی۔ بے شمار فلموں میں کام کرنے کے باوجود ٹُن ٹُن کے گائے ہوئے گیت ’افسانہ لکھ رہی ہوں‘ کو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود کوئی ذہن سے فراموش نہیں کر سکا۔
ہنستی مسکراتی یہ اداکارہ 23 نومبر 2003 کو اُس سفر پر جا نکلی جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ہوئی۔