یہ قصہ ہے 1980 کا۔ وسطی سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر پڈعیدن سے کراچی آئے ہوئے مجھے دو سال ہوئے تھے۔ ضیا آمریت کو شروع ہوئے تین سال گزر چکے تھے۔ بیس سال کی عمر میں مجھے اس وقت کے اکثر نوجوانوں کی طرح انقلاب کا بھوت سوار تھا۔
مزاحمت اور انقلاب ان دنوں میں فیشن بھی تھا۔
میں ان دنوں پاکستان سٹیل ملز میں زیر تربیت کیمسٹ تھا۔ ہر ماہ پورے دو سو روپے کا وظیفہ ملتا۔ سارا گزر سفر اس رقم میں کرنا ہوتا تھا۔ اتنی مختصر رقم کا اچھا خاصہ پھر بھی ہم ریگل چوک پر پرانی کتابیں خریدنے میں خرچ کر دیتے تھے۔ میں اور میرا دوست ایاز ابڑو ڈرگ کالونی میں محکمہ صحت میں ملازم ان کے دوست کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ ایک دن ایاز خوش خوش آیا۔ کہا کہ نئی ملازمت ملی ہے۔ پوچھا کیا ملازمت ہے؟ کہا کہ ایک ادبی رسالے آواز میں کام کروں گا جس کی ایڈیٹر فہمیدہ ریاض ہے۔ میں نے پہلی بار ان کا نام سنا۔
ایک صبح جب ہم اٹھے تو جیب میں چند روپے تھے۔ میں نے کہا کہ پٹھان کے ہوٹل پر چائے پراٹھے کا شاندار ناشتہ کرتے ہیں۔ ایاز نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن رات کو کیا کھائیں گے؟ پھر؟ میں نے پوچھا۔ کیا کریں؟
ایاز نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ شیر شاہ چلتے ہیں۔ وہاں میں نے کسی کو رسالے دیے ہیں۔ امید ہے کہ وہ بِک گئے ہونگے۔ شیر شاہ کیسے جائیں؟ ایاز نے کہا کہ ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن سے سرکلر ٹرین شیر شاہ جاتی ہے۔ دس منٹ پیدل چل کر ہم ٹرین سٹیشن پہنچے اور ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر آئے۔ کچھ دیر بعد ریل گاڑی بھی آ گئی۔ شیر شاہ اتر کر ہم پیدل پیدل کچھ دیر بعد ایک نیوز سٹینڈ پر پہنچے۔ ایک ادھیڑ عمر کے ایک پختون بیٹھے تھے۔ ایاز نے پوچھا کہ رسالے فروخت ہو گئے تو لالے نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نہیں خریدتا۔ واپس لے جاؤ۔
ہم بڑے مایوس ہوئے۔ اب دوپہر ہو چلی تھی اور بھوک سے برا حال تھا۔
ایاز نے دو درجن رسالے اٹھا کر کاندھے پر رکھے اور دکان سے باہر نکل آئے۔ اب کیا کریں۔ ایاز نے کہا انہیں ردی میں بیچ دیتے ہیں۔ ایک جگہ رسالے بیچے اور چند روپے لیے۔
میں نے کہا پکوڑے نان خریدتے ہیں۔ ایاز نے کہا کہ اگر یہاں کھانا کھا لیا تو گھر کیسے جائیں گے؟ میں نے پوچھا کیا کریں پھر؟ ایاز نے کہا کہ ان پیسوں سے بس میں صدر چلتے ہیں فہمیدہ ریاض کے پاس۔ اسے سچ بتاتے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=snKci_jByg0
ہم دونوں بس میں بیٹھ کر ایمپریس مارکیٹ صدر پہنچے۔ وہاں سے ایلفی سٹریٹ جو اب زیب النِسا سٹریٹ کہلاتی ہے پیدل چلتے ہوئے آواز رسالے کے دفتر پہنچے۔ یہ دفتر اس وقت ریو سنیما کے مد مقابل واقع تھا جو بعد میں سنیما انڈسٹری کی تباہی کے بعد ریو آڈیٹوریم اور بعد میں شاپنگ مال میں تبدیل ہوا۔ ریو سنیما کیساتھ کونے پر کیفے نیویارک ہوا کرتا تھا۔
کونے میں سٹینڈرڈ پبلشنگ ہاؤس تھا جہاں سوؤیت روس کی کتابیں ملتی تھیں اور اس کے آگے آواز رسالے کا دفتر تھا جو کہ دوسری منزل پر تھا۔ صرف چند سال پہلے وہاں پر مرینا بار تھا جو کہ ضیا آمریت کے بعد بند ہو گیا تھا۔ یہ عمارت پنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کے ساتھی محمد حسین عطا کی ملکیت تھی اور اس عمارت کا انتظام ان کے بیٹے نجم الحسن عطا کے پاس تھا جو خود بھی ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے ہی یہ دفتر فہمیدہ ریاض کو دیا تھا۔ فہمیدہ ریاض کا خیال رکھنے والوں میں وہ تھے، مجاہد بریلوی تھے اور آنی سہیلی انیس ہارون۔
آگے ایاز اور پیچھے میں۔ ٹھک ٹھک ٹھک کرتے ہوئے لکڑی کے زینے چڑھتے ہوئے ہم فہمیدہ کے کمرے میں پہنچے۔ ایاز نے سلام کیا تو سامنے بیٹھی خاتون نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے عینک ناک پر چڑھائی اور میٹھی سی آواز میں ایاز کو سلام کا جواب دیا۔ دفتر کیا تھا، چاروں طرف کتابوں کا سمندر تھا۔
https://www.youtube.com/watch?v=zN0BDiOLsn4&t=14s
ایاز نے میرا تعارف کرایا اور دن بھر کی پوری کارگزاری خاتون کو بتا دی۔
آپ کے رسالے ردی میں بیچ کر آ گئے ہیں اور رات سے کھانا نہیں کھایا۔
فہمیدہ نے ہماری طرف دیکھا اور سامنے پڑے ہوئے کالے رنگ کے فون کے کریڈل کو کھٹ کھٹ کر کے دبایا اور کہا، کیفے نیویارک؟ جلدی سے ایک درجن چکن پیٹس اور تین چائے لے آؤ۔
تھوڑی دیر میں ویٹر چکن پیٹس، چائے اور کیچپ کی بوتل لیکر پہنچ گیا۔
ہم نے کیچپ کی تقریباً پوری بوتل چکن پیٹس پر انڈیل کر کھائے، دو دو گلاس پانی پیا اور چائے پی۔
فہمیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ادب، سیاست اور تاریخ پر کیا کچھ پڑھا ہے۔
جاتے ہوئے فہمیدہ نے پچاس روپے ایاز کو دیے اور مسکرا کر کہا کہ عقلمند آدمی آئندہ پیسے ختم ہو جائیں تو مانگ لینا، رسالے ردی میں نہ بیچنا۔
فہمیدہ نے مجھے گھر آنے کا کہا۔ ان کا گھر پی ای سی ایچ سوسائٹی میں نرسری کے پاس تھا۔ وہیں پر میری ملاقات ان کے شوہر ظفر اُجن سے ہوئی جو حال ہی میں رسول بخش پلیجو کی پارٹی سندھی عوامی تحریک سے الگ ہوکر پ پ پ میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کی گفتگو میں ماؤزے تنگ اور چے گویراکا تڑکا بھی شامل تھا۔ وہیں پر میری ملاقات ان کے بیٹے کبیر اور بیٹی ویرتا سے ہوئی جو اس وقت پرائمری سکول کی عمر میں تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=G5zrp_s2L94&t=7s
یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب سندھ کے ایک انقلابی نوجوان نذیر عباسی کو ضیا کے ایک عقوبت خانے میں 9 اگست کو شہید کیا گیا تھا۔ جب معاملہ اس وقت کی سندھ ہائی کورٹ میں گیا تو درخواست ادھوری قرار دیکر کیس نمٹا دیا گیا تھا۔ اسی سانحے پر فہمیدہ ریاض نے اپنی شاندار نظم لکھی تھی۔
پتھرائے ہوئے چہرے
پتھرائی ہوئی آنکھیں
چمڑے کی زبانوں پر
لچکی ہوئی کچھ باتیں
پتھر کہ جو چکنے تھے
ہاتھوں سے پھسلتے تھے
قانون کے نکتے تھے
کیا لوگ سمجھتے تھے
'سنگیں مجبوری ہے
درخواست ادھوری ہے
آواز رسالے میں چھپنے والا مواد کسی طور پر بھی ضیا دور میں قابل قبول نہیں تھا۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ فہمیدہ اپنے خاندان کے ہمراہ ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ حال ہی میں نجم الحسن عطا نے مجھے بتایا کہ جب وہ بھارت دوبارہ ہجرت کر کے گئیں تو ان کی دوست اور مداح امرتا پریتم نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے درخواست کر کے انہیں سیاسی پناہ دلوائی جہاں سے وہ بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان واپس آئیں۔
پھر میں ان کو بھول ہی گیا کیونکہ میں 1993 میں امریکہ چلا گیا تھا۔
اکتوبر 2007 میں ایک دن واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کی کوئن بلڈنگ میں کام کے دوران مجھ سے وہاں میرے ساتھ کام کرنے والی خاتون شہناز عزیز نے مجھ سے پوچھا کہ میرے پاس فہمیدہ ریاض کا نمبر ہے۔ میں نے کہا کہ میں کراچی میں کسے سے لیکر آپکو دیتا ہوں۔ جب میں نے نمبر لے لیا تو انہوں نے بری خبر سنائی کہ فہمیدہ کا جواں سال بیٹا کبیر ایک حادثہ میں جان بحق ہو گیا ہے۔ نوجوان کسی جھیل میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے اور کئی دن ان کی شناخت بھی نہ ہو پائی تھی۔ یہ بری خبر دینے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ یہ خبر میں نے کیسے دی لیکن جب وہ امریکہ آئیں تو وہ اندر سے بالکل ٹوٹ گئی تھیں۔ وہ مسلسل خلاؤں میں گھورتی رہتیں، کبھی ہنستیں اور کبھی روتیں۔
ایک سال بعد جب میں پاکستان واپس آیا تو جب بھی میری ملاقات فہمیدہ ریاض سے ہوتی تو میں انہیں اس سہ پہر کا ضرور بتاتا جب انہوں نے ہمارے لئے چکن پیٹس اور چائے منگائی تھی اور شفیق ماں کا سلوک کیا تھا۔
آج جب فہمیدہ ریاض موجود نہیں ہیں تو ہم سب لوگ اظہار رائے کے حوالے سے بھوکے پیاسے ہیں۔ آج ہمیں فہمیدہ ریاض کی زیادہ ضرورت ہے۔
شاید ایسے ہی کسی موقع کیلئے سندھ کے جدید شاعر شیخ ایاز نے اپنے ھائیکو میں کہا تھا
آ گدري جي ھي ڦار امان
اڄ پورو ناھي چنڊ
اسانکي بک بہ ڏاڍي آ
ماں، مجھے تو یہ خربوز کی قاش لگتا ہے
آج چاند پورا نہیں
اور ہمیں بڑے زور کی بھوک لگی ہے