قومی ادارہ معلومات نے فوج کے اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں، اثاثہ جات،مراعات اور پلاٹوں کی تفصیلات طلب کرلیں

قومی ادارہ معلومات نے فوج کے اعلیٰ افسروں کی تنخواہوں، اثاثہ جات،مراعات اور پلاٹوں کی تفصیلات طلب کرلیں
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وزارت دفاع سے فوج کے اعلی افسروں کی تنخواہوں، اثاثہ جات،مراعات اور پلاٹوں کی تفصیلات طلب کرلی۔ انفارمیشن کمیشن کی طرف سے کہا گیا کہ فوج کے ملازمین کے اثاثے حساس نہیں بلکہ عوامی معلومات ہیں۔

ویمن اکیشن فورم کی طرف سے انفارمیشن کمیشن کی جانب سے 34 سے زائد اپیلیں دائر کی گئیں تھیں کہ انہیں ان معلومات تک رسائی درکار ہے جبکہ انہیں قزارت دفاع کی جانب سے انہیں یہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا تاہم پاکستان انفارمیشن کمیشن نے ان اپیلوں کی مد میں وزرات دفاع کو ہدایات جاری کر دی ہیں اور وزارت دفاع کے ماتحت تمام فوجی افسران کے اثاثہ جات کی تفصیلات طلب کر لی گئی ہیں۔

جن لوگوں نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو ان معلومات کیلئے درخواستیں دے رکھی تھیں ان میں نگہت سعید خان، انیس ہارون، ہلدہ سعید، ڈاکٹر عبدالحمید نیر، نائلہ ناز، عظمیٰ نورانی، میمونہ روف خان، نسرین اظہر، روبینہ سہگل، ماریہ راشد، کوثرخان، نازش بروہی اور فرحت اللہ بابر شامل ہیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وزارت دفاع کو 10 دنوں کا اندر یہ تمام معلومات فراہم کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ وزارت دفاع کو لکھے گئے خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان ہدایات کو نظر انداز کرنے کی صورت میں متعلقہ آفیسرز کے خلاف سخت قانونی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے۔

ویمن ایکشن فورم نے قومی انفارمیشن کمیشن کی اس کاروائی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل انہوں نے وزارت دفاع سے فوج اور اس کے متعلقہ تمام اداروں کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات کیلئے خط لکھے لیکن وزارت کی طرف سے کوئی بھی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ اسی لئے انہوں نے قومی اطلاعات کمیشن سے رابطہ کیا۔

ویمن ایکشن فورم کے مطابق انہیں معلومات فراہم کرنے کی بجائے وزارت دفاع کی طرف سے لکھا گیا کہ وزارت دفاع کے ماتحت ادارے کسی کے ساتھ بھی اپنی معلومات شئیر نہیں کر سکتے۔ تاہم پاکستان انفارمیشن کمیشن نے کہا ہے کہ وزارت دفاع کے افسران کے اثاثے کوئی حساس معلومات نہیں بلکہ پبلک معلومات ہیں۔

یاد رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 19A کے تحت کوئی بھی شہری حکومتی معاملات پر معلومات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔