Get Alerts

کیا واقعی اقتدار کے لیے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی تیاری نہیں تھی؟

کیا واقعی اقتدار کے لیے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی تیاری نہیں تھی؟
جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے ہر دن یہی بات سننے کو ملتی ہے کہ ان کی سمت خراب ہے، بالخصوص میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ لفظ اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اس کالم میں ہم جانے کی کوشش کریں گے آخر یہ سمت کیا چیز ہے اور حکومت کی سمت غلط ہے یا درست؟

سمت سے مراد آگے کا راستہ ہے، جب کوئی بھی شخص کچھ کرنے کی ٹھان لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی سمت کا تعین کرتا ہے.صحیح سمت ہمیشہ اسے کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے,اور غلط سمت کے تعین کی وجہ سے اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے.موجودہ حکومت نے اقتدار سنھالنے سے پہلے کئی بلند بانگ دعوے اور دعدے کیے تھے، چونکہ عوام نے کبھی ان کی کارکردگی نہیں دیکھی تھی، اس لیے ان کو مکمل سپورٹ کیا اور الیکشن میں بھر پور ساتھ دیا۔

سوائے سندھ کے وفاق سمیت ملک کے تمام صوبوں میں ان کی حکومت بنی، جیسے ہی حکومت کو صرف سو دن گزرے تھے بہت سے تجریہ نگاروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ان کی تیاری نہیں تھی۔ ان کی پالیسیوں پر ہر طرف سے تنقید شروع ہوئی، یہی سلسلہ آج دن تک جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف کی تیاری نہیں تھی؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کسی بھی حکومت کی سمت کا اندازہ اس کے منشور سے لگایا جاتا ہے، ان کے منشور میں شامل ایجنڈے سے ہی معلوم ہوتا ہےکہ آیا ان کی سمت درست ہے یا غلط۔ اس حکومت نے الیکشن سے پہلے ایک کروڑ نوکریاں کا عوام کو جانسہ دیا اور پچاس لاکھ گھر غریبوں کے لیے بنانے کا وعدہ کیا جو کہ کسی بھی معاشی ماڈل کے لحاظ سے ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ ملک کے اکثر معشیت دانوں نے اسے ناممکن قرار دیا کہ ایک ترقی پذیر ملک میں اس پیمانے پر نوکریاں اور اتنے گھر ایک ناممکن خواب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ "باہر والے ممالک سے پاکستان میں نوکریاں کرنے لوگ پاکستان آئیں گے" جیسے نعرے تو زبان ذد عام تھے۔

ان سب کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، حکومت میں آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان ملائشیا اور سنگاپور کی مثالیں دیتے تھے۔ ان کے ماڈل پر عمل کرکے ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کی باتیں کرتے تھے جس سے عوام بالعموم اور یوتھ بالخصوص نے ان کے اس نعرے پر لبیک کہا۔ اب سوال یہ ہے کیا ان تین سالوں میں وزیر اعظم ان ماڈلز پر عمل درامد کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟جواب نہیں! آئیِے مذکورہ بالا ملکوں کی ترقی کا راز جانے کی کوشش کرتے ہیں، ان ممالک نے ایسے کیا اصول اپنائے کہ پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے کے باوجود آج وہ ممالک دنیا میں ایک الگ مقام رکھتے ہی۔

سب سے پہلے سنگاپور کی مثال لیتے ہیں، سنگاپور میں 1959ء میں جب لی کیوں یوں نے اقتدار سنبھالا تو ملک مختلف مسائل سے دوچار تھا۔ ملک کو بیک وقت بیرونی اور اندورنی طور خطرات کا سامنا تھا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اقتدار سنبھالا تو کئی اہم اقدامات اٹھائے جو ملک کی تقدیر بدلنے میں کارآمد ثابت ہوئے۔ ان میں سب سے پہلے جرائم پر قابو پایا، سنگاپور کو ایک کرائم فری ملک بنایا۔ اس ایک قدم نے ملک میں باقی تمام اداروں پر اثرات مرتب کئے۔ جرائم نہ ہونے کے باعث بیرون ملک سے لوگ سرمایا کاری کے لئے آئے، جس سے روزگار میں اضافہ ہوا۔ روزگار بہتر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے تعلیم اور صحت پر زیادہ توجہ دی جس سے دیکھتے ہی دیکھتے تیس سال میں ملک ایک ہنر مند معاشرہ بن گیا۔

آج سنگاپور جس کی آبادی محض پانچ ملین کے قریب ہے میں 30000 ہزار سے زائد بین الاقوامی کمپنیاں مصروف عمل ہیں۔ وہ ملک تجارت کا ایک حب بنا ہوا ہے۔ لوگ سیر و تفریح اور چھٹیاں گزارنے ملائیشیا کا رخ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عالمی معیار کی جامعات اور بہترین تحقیقی مراکز بھی قائم کئے جس سے ملک کا تعلیمی نظام آج دنیا کی بہترین اصولوں پر گامزن ہے۔

ملائیشیا کی بات کرتے ہیں,جسے آج ایشین ٹائیگر کہا جاتا ہے۔ ایک صحافی نے مہاتر محمد سے ان کی کامیابی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ 'جب میں پہلی بار وزیر اعظم بنا تو میں نے سوچا یا تو میں اپنے خاندان کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتا ہوں یا ملائشیا کو معاشی استحکام دے سکتا ہوں، میں نے ملائشیا کے جق میں فیصلہ کیا'۔ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ وہ ملک کو اپنی ذات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔ میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیّں، کڑی سی کڑی سزائیں آئین میّں شامل کی گئی ہیں۔

کوئی بھی ملک اگر اس طرح کی سمت کا تعین کرے تو کامیابی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران نے ان تمام ماڈلز کو پڑھا ضرور ہے اور ان سے مدد بھی لی ہوگی لیکن ان کے اصولوں پر عمل کرنے کے لیے آج بھی تیار نہیں ہے۔ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی ابتدائی تقریر میں تمام اپوزیشن کو جیلوں میّں ڈالنے کی قسم کھائی تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مشن میں کامیاب بھی ہوِگئے۔ احتساب کے نام پر صرف مخالفوں کو ہراساں کیا اور اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ آئین میں جو وزیر اعظم کا کردار بیان کیا ہے اس سے کئی بار انحراف کیا.۔ مثال کے طور پر آئین میں واضح طور پر بیان ہے کہ کسی بھی سرکاری عہدے کی تقریری کے لئے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر دونوں کی مشاورت ضروری ہے، ان تین سالوں میں کئی بار ایسے مواقع آئے جس میں ان دونوں کی مشاورت کی ضرورت پڑی، لیکن وزیر اعظم نے اپنی انا کی وجہ سے آئین کے تقدس کا خیال نہیں رکھا۔

ان تمام چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم جس کی لوگوں نے ایک لیڈر کے طور پر حمایت کی تھی اب وہ بھی ایک روایتی سیاست دان بن چکے ہیں۔ اپنے اقتدار کی خاطر ہر وہ ہربہ استعمال کیا جو ماضی کے حکمران کا شیوہ تھا۔ قوم کو معاشی،سماجی اور اخلاقی طور پر اٹھانے کے لئے بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اپنی ذات سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ سب ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

آج بھی اگر قوم کو یہ یقین ہو کہ ان کی سمت درست ہے اور آنے والے وقت میں بہتری آئے گی تو یہ قوم ان کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے تیار ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر اگر وقتی طور پر قابو پالیا جاتا ہے تو بھی یہ صحیح سمت کی نشاندہی نہیں ہے، کیونکہ ایسی چیزیں وقتی ہوتی ہیں۔ قوم کا معیار درست کرنے کے لیے دیرپا فیصلے کرنے پڑتے ہیّں جن سے ادارواں کے استحکام,ملک میّں معاشی بہتری کے لئے ایسے قوانین جن سے نہ صرف ایک الیکشن بلکہ پوری نسل استعفادہ حاصل کرسکیں۔

سنگاپور ماڈل پر عمل کرنے کی ضرورت ہے جس میّں سب سے پہلے جرائم پر قابو اور ملک میں موجود عدم بردشت کے خلاف ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تعلم پر زیادہ سے زیادہ بجٹ خرچ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اخر میں ریسرچ پر کام سے ہی ملک میں موجود مسائل کا تدارک ہوسکتے ہیں۔ ایک حالیہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 87 فیصد لوگوں کا خیال ہے ملک کی غلط سمت میّں جارہی ہے. یہ پوری قوم لے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اسے بنے ستر سال سے زائد عرصہ گزار گیا ہے لیکن سمت آج بھی درست نہیں۔