شاہد میتلا نے کہا ہے کہ بیان بازیاں سیاست کا حسن ہوتی ہے۔ آصف زرداری نے ایسی کوئی سنگین اور سنجیدہ بات نہیں کی تھی، لگتا ہے کہ شہباز شریف نے اسے زیادہ ہی دل پر لے لیا ہے۔ زرداری صاحب نے تو اتنا ہی کہا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے ہم تو وطن میں ہی رہیں گے، جو لوگ ملک چھوڑ گئے وہ بے وفا ہیں۔ اس پر لیگی صدر نے اچھا خاصا اودھم مچا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ زرداری پر اپنی پارٹی کا بھی دبائو ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ایسی بات کی کیونکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو دوبارہ بحال کرنے کی بھرپور کوششیں کی جا رہی ہیں۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کی۔ شاہد میتلا نے کہا کہ لیکن پیپلز پارٹی جتنی مرضی کوششیں کر لے پنجاب میں کھویا ہوا سیاسی مقام دوبارہ حاصل کرنا بہت ہی مشکل ہے۔ یہ جنتی مرضی بھاگ دوڑ کر لیں، قربانیاں دے دیں، اسٹیبلشمنٹ کی باتیں مان لیں، انھیں پنجاب میں شیئر نہیں ملے گا۔ مجھے تو یہ جماعت سندھ میں بھی اکثریت میں آتی نظر نہیں آ رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں انہوں نے صوبہ پنجاب کی 141 سیٹوں میں سے صرف 6 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ اب بھی جتنا مرضی زور لگا لیا جائے، اس سے زیادہ سیٹوں پر جیتنا بہت مشکل ہے۔
https://twitter.com/nayadaurpk_urdu/status/1469017725611687942?s=20
شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ آصف زداری اس طرح کی بیان بازی سے الیکشن میں اپنا حصہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اس طرح کے بیانات دینے سے میں اسٹیبلشمنٹ کو خوش کر لوں گا۔
عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کا نام اب مفاہمت کی سیاست سے جڑ چکا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہم نے ان سے آج تک وہ زبان نہیں سنی جو وہ ماضی میں استعمال کرتے رہے۔ آصف زرداری سے قبل پشاور جلسے میں بلاول بھٹو نے بھی لیگی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ پیپلز پارٹی کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن پی ٹی آئی کا ناراض ووٹر ان کی جانب بھی جا سکتا ہے۔
مرتضٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی فیصلہ کر چکی ہے کہ اس نے مسلم لیگ (ن) کیخلاف انتخابی میدان میں اترنا ہے۔ اب اس کے قائدین اپنی حریف جماعت اور اس کے قائدین کی خوبیاں تو بیان نہیں کرسکتے۔ آپ پیپلز پارٹی سے کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ نواز شریف پر تنقید نہ کرے۔ گذشتہ دنوں لیگی رہنما طلال چودھری نے بلاول کیخلاف جو زبان استعمال کی اس کو سب نے سنا، انہوں نے ابھی تک اپنے بیان پر معذرت تک نہیں کی ہے۔ میں عوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سیاستدانوں کے ایک دوسرے بارے بیانات کو سنجیدگی سے نہ لیا کریں۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے، اس کے تحت وہ کسی سے بھی بغل گیر ہو سکتے ہیں اور کسی بھی وقت پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں گے۔