Get Alerts

جمہوریت کے نام پر مذاق

جمہوریت کے نام پر مذاق
پاکستان ميں انتخابات کے دنوں میں ووٹرز کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ تجوریوں کے منہ کھول دیے جاتے ہیں۔ ووٹرز کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ ووٹرز اور امیدواروں کے درمیان فاصلے مٹ جاتے ہیں۔ امیر اور غریب یک جاں اور دو قالب محسوس ہوتے ہیں۔ امیدوار مذہبی، فلاحی اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ امیدواروں کے شب و روز اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں گزرتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور انفرادی و علاقائی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔ سائلین کی درخواستوں کو فوری شنوائی ملتی ہے۔ بلند و بانگ وعدے کیے جاتے ہيں اور روشن مستقبل کے سپنے دکھائے جاتے ہيں۔

الیکشن کے دن تک ووٹر کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے



امیدواروں کے انتخابی دفاتر میں بھی ووٹرز کی خوب خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ کئی کئی دن مفت کھانا دیا جاتا ہے اور چائے و مشروبات سے تواضع کی جاتی ہے۔ الیکشن کے دن ووٹرز کو امیدوار کی طرف سے مفت ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے اور ہر ممکن رہنمائی و امداد دی جاتی ہے۔ اس پورے انتخابی عمل کے دوران ووٹرز بآسانی امیدواروں سے مل سکتے ہيں۔ نہ تو سکیورٹی اور نہ ہی سماجی و مالی حیثیت جیسی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ ووٹرز اپنے اپنے پسندیدہ امیدوار کی خاطر جان دینے اور لینے پر بھی تیار رہتے ہیں۔

تصویر کا دوسرا رخ



اب آتے ہيں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب۔ الیکشن ہونے کے بعد سارا منظر و حقائق یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ امیدوار گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں۔ سکیورٹی اور سماجی رتبے و حیثیت جیسی رکاوٹیں آڑے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جیتے ہوئے امیدوار کو ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ ووٹرز اور انسانیت کی جی بھر کر تذلیل کی جاتی ہے۔ غریبوں کے کام نہیں ہوتے اور ترقیاتی کاموں کو بھی بریک لگ جاتی ہے۔ وعدوں اور دعوؤں کو ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے۔ میرٹ کی پامالی اور غریب کی بدحالی شروع ہو جاتی ہے۔ پورے انتخابی عمل کا آغاز اور اختتام ووٹر کو بیوقوف بنا کر ہوتا ہے اور غريب بیچارے کے ہاتھ کچھ نہيں آتا۔

حقیقی جمہوریت میں کیا ہوتا ہے؟



حقیقی جمہوریت میں عوام کی حکومت خالصتاً عوام کے ووٹوں سے اور عوام کی خدمت کے لئے بنتی ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ریکارڈ اور عوامی فلاح و بہبود کے حامل منشور کے بل بوتے پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں۔ عوام کو بغیر کسی دباؤ کے اپنا حق نمائندگی استعمال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی ووٹر بے شک غریب ہو یا امیر الیکشن میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ انتخابی مہم میں شائستگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ غریب امیدوار کے انتخابی اخراجات اسکی پارٹی برداشت کرتی ہے۔ انتخابی اخراجات بھی محدود ہوتے ہیں۔ امیدوار کا ماضی، کردار اور اثاثے عوام کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ ہارنے والی پارٹی کھلے دل سے نتائج تسلیم کرتی ہے۔ حکومت منتخب ہونے کے بعد اپنے منشور کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کو صحت، تعلیم، پانی، روزگار، سڑکیں اور ديگر بنیادی سہولتیں دینے پر خرچ کیا جاتا ہے نہ کہ حکمرانوں اور اشرافيہ کی عیاشیوں پر۔ حکمرانوں اور عوامی نمائندگان کے پروٹوکول اور اخراجات کم سے کم ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندے سے انتخابات کے بعد بھی آسانی سے رابطہ کیا جا سکتا۔ تمام حکومتی امور اور پالیسیاں شفاف ہوتی ہیں اور ہر عمل عوام اور آزاد میڈیا کے سامنے ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا بھی ایک جامع نظام پایا جاتا ہے۔

پاکستان کا موازنہ ان جمہوریتوں سے نہیں کیا جا سکتا



ایسی یا اس سے ملتی جلتی جمہوریت دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت کا مہذب ممالک کی اور حقیقی جمہوریت سے ذرہ برابر بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے ہاں تو جمہوریت کے معنے اور خدو خال یکسر ہی تبدیل ہو جاتے ہيں۔
وطن عزیز میں سیاسی جماعتیں اپنے ريکارڈ، کارگردگی اور منشور کے بجائے پچھلوں کو کوسنے اور گالم گلوچ کے ساتھ عوام کے پاس جاتی ہیں۔ عوام کو ہر بار جھوٹے اور سہانے سپنوں اور وعدوں سے ورغلایا جاتا ہے۔ بے انتہا انتخابی اخراجات نے عام آدمی کا الیکشن میں حصہ لینا ناممکن بنا دیا ہے۔ پاکستان میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد بذات خود بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور اسی مبہم صورتحال کی وجہ سے کوئی بھی نتائج تسلیم نہيں کرتا۔ اصلی اور حقیقی اثاثے ظاہر نہیں کیے جاتے۔ انتخابات کے بعد جیتنے والے گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہو جاتے ہیں اور ان سے ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام کے بجائے خواص پر خرچ ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کا نظام کلی طور پر رائج نہیں اور اسی وجہ سے سینیٹ وغیرہ کے انتخابات میں بے انتہا پیسہ چلتا ہے۔

کیا جاہل اور عالم برابر ہو سکتے ہیں؟

ایک اور نکتہ جو میری سمجھ سے بالاتر ہے وہ یہ کہ ڈاکٹر کے لئے طب، وکیل کے لئے قانون اور استاد کے لئے متعلقہ شعبے کا سند يافتہ ہونا ضروری ہے مگر محکموں کے سربراہان یعنی وزراء کے لئے ایسی کوئی شرط نہيں۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ ایک عالم، ذی شعور اور عقلمند انسان کی رائے کیسے ایک جاہل، کم عقل یا ذہنی پسماندہ شخص کی رائے کے برابر ہو سکتی ہے۔
صرف عوام کے ووٹ سے بننے والی پارلیمان سپریم ہوتی ہے

بالغ جمہوری ریاستوں میں پارلیمان کو خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ خالص عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتيں صرف اپنی عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک کو دیکھيں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ انکی ترقی اور خوشحالی کا راز ان کی جمہوریت اور مضبوط پارلیمان میں پوشیدہ ہے۔ شفاف و غیر جانبدارانہ نظام اور صرف عوام کے ووٹ سے بننے والی پارلیمان ديگر تمام اداروں سے بالاتر اور سپریم ہوتی ہے۔ ہر ادارہ پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔ پارلیمان کسی بھی ادارے کے سربراہ کو طلب بھی کر سکتی ہے اور بازپرس بھی کرسکتی ہے۔ تمام ادارے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرتے ہیں اور کوئی بھی ادارہ کسی دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ وہاں پارلیمان آزادانہ طریقے سے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام کرتی ہيں۔

ترقی یافتہ جمہوریتیں ایک رات میں یہاں تک نہیں پہنچیں

یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں پارلیمان دنوں، مہینوں یا سالوں میں اس مقام پر نہیں پہنچيں بلکہ اس ميں کئی عشرے لگے ہيں اور انکی پارلیمان کی مضبوطی میں سب سے اہم کردار جمہوری نظام کے تسلسل کا ہے۔ پڑوسی ملک کو ہی دیکھ لیں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ لولی لنگڑی ہی سہی مگر وہاں ہر جمہوری حکومت کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا گیا اور وہاں پارلیمان کو ہی تمام اداروں پر برتری حاصل ہے۔
یہاں جمہوریت کو پنہنے ہی نہیں دیا جاتا



ستم ظریفی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت کو تسلسل کے ساتھ پنپنے نہیں دیا گیا۔ ہمارے ہاں حقیقی معنوں میں پارلیمان کبھی بھی بالا دست نہیں رہی اور جس کا جب جی چاہا اس کی دیواروں میں نقب لگاتا رہا۔ میں اور میرے کروڑوں ہم وطن یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارے ووٹ میں اتنی طاقت بلکہ سچ کہیے تو ہمارے ووٹ کی اتنی اوقات ہی نہيں کہ وہ ایک مضبوط پارلیمان کی تشکیل کر سکے۔ ایک ایسی پارلیمان جو صرف عوام کے ووٹ سے منتخب ہو اور صرف عوام کو ہی جوابدہ ہو۔

قارئين، ان تمام حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنے جمہوری نظام کی ازسرنو تشکیل کے لئے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں