خدا را محض سیاست گردی نہ کی جائے

خدا را محض سیاست گردی نہ کی جائے
مائنس ون، حکومت جانے والی ہے۔ حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ حکمران نااہل ہیں۔ 1988 کے بعد بننے والی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سے لے کر عمران خان حکومت تک ماسوائے پرویز مشرف آمریت کے اقتدار سے باہر رہنے والے سیاست گردوں کو یہی جملے کہتے سنا ہے۔

ماضی بھی شاندار نہیں ہے مگر 1988 کے بعد کے سیاسی حالات آنکھوں دیکھے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت اگر مدت پوری کرتی تو ملکی صورتحال اور عوام کے حالات آج جیسے بالکل نہ ہوتے۔ روپے کی قدر مستحکم ہوتی اور غربت تیزی کے ساتھ سرایت کر کے انسانوں کو نگل نہ رہی ہوتی۔ واقفان حال اتفاق کریں گے کہ 20 ماہ کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کےلئے شاندار بنیادیں رکھی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کیوں ختم کی گئی۔ اس کے پچھے کیا محرکات تھے۔ عام عوام، مزور، کسان، ہاری کو اس سے کل بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور آج بھی کوئی غرض نہیں ہے۔

عام عوام کو اپنے بنیادی مسائل اور ملکی ترقی سے دلچسی ہے اور اپنے حالات کار کی بہتری سے غرض ہے۔ جب کہ سیاست گردوں کو صرف اقتدار اور حکومت میں آنے میں دلچسپی ہے اور اپنی سیاست چمکانے سے غرض ہے۔

ملک کی گذشتہ 32 سالہ پارلیمانی سیاست کی تاریخ میں سویلین پارلیمنٹیرین اور پارلیمانی سیاسی جماعتوں کا کردار سامنے ہے۔ سیاستدان ملک بناتے ہیں۔ ملک تعمیر کرتے ہیں۔ سیاستدان قومیں بناتے ہیں۔ قوموں کی تربیت کرتے ہیں۔ پرامن اور اخلاقیات پر مبنی معاشرہ تشکیل کرتے ہیں۔ معاشروں میں تحمل، رواداری، برداشت سیاستدان پیدا کرتے ہیں۔

ملک عزیز میں سب کچھ الٹا چل رہا ہے۔ کرپشن، مذہبی انتہا پسندی، عدم برداشت، بدامنی، بداخلاقی سیاستدانوں کی وجہ سے معاشرے میں تیزی کے ساتھ پنپ رہی ہے۔ یہ بہت بڑا سوال ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ کیا سیاستدان سیاسی تعلیم سے نابلد ہیں، سیاسی تربیت نہیں ہے۔ جی ہاں ہے۔ ایسا ہی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں سیاسی تعلیم و تربیت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں کارکنوں کی سیاسی تربیت سے تشکیل نہیں پاتی ہیں بلکہ بھانت بھانت کے لوگ اکٹھے کرکے اس ہجوم کو سیاسی جماعت کا نام دے دیا جاتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف موجودہ دور کی زندہ مثال ہے کہ کس طرح سے بنائی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی اخلاقیات، سیاست، سیاسی نظریہ اور سیاسی فلاسفی سب کے سامنے ہے۔ مسلم لیگ کا جنم بھی ایسے ہوا تھا۔ بنیادی طور یہ ایسی تمام جماعتیں، ایسے تمام سیاست دان محض اقتدار کے کھلاڑی ہیں۔ انہیں عوام کے نمائندے کہنا اور تسلیم کرنا فاش غلطی اور خود فریبی ہے۔ عوامی نمائندے اور عوام کے حقوق اور مفادات کی سیاست کرنے والے سیاست دان اپوزیشن میں ہوں تو وہ حکومت گرانے، مائنس ون، حکومت جانے والی ہے۔ حکمرانوں کے دن گنے جا چکے ہیں۔ حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ حکمران نااہل ہیں۔ جیسی باتیں کرنے کی بجائے عوامی مفادات اور عوامی حقوق کا چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کے سامنے رکھتے ہیں۔ حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ جو انتخابی وعدے کیے تھے وہ حکمران پورے کریں۔ حکومت کو جچ کرنے کے لئے پارلیمان کے اندر اور باہر احتجاج کرتے ہیں۔ پارلیمانی اجلاسوں سے واک آوٹ کرتے ہیں۔

عوام کے نمائندے اور حقیقی سیاستدان معاشرے کا عکس ہوتے ہیں۔ گالم گلوچ، غیر اخلاقی بات چیت، الزامات کی سیاست نہیں کرتے ہیں۔ سیاسی افق پر موجود تمام ایسے سیاست دان جو عوام کی بات نہیں کرتے ہیں۔ جس مقصد کے لئے انہیں چنا گیا ہے۔ اس کی بجائے کمیشن خوری، سرکاری فنڈز سے عیاشی کرتے ہیں۔ عوام کے ووٹ فروخت کرتے ہیں۔ سیاسی سکورنگ کے لئے دوسروں پر الزام لگاتے ہیں۔ دشنام طرازی کرتے ہیں۔ عوام دشمن ہیں اور ملک کے خیر خواہ نہیں ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کی ضرورت ہے کہ 63 -62 اور تعلیمی اسناد کی بجائے سیاسی وابستگی اور سیاسی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سوال پوچھے اور سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن سے لیکر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار تک سو فیصد سیاسی میرٹ بنایا جائے اور سابقہ ریکارڈ کی بھی چھان بین کی جائے مگر اولین فریضہ سیاسی جماعتوں کا ہے کہ وہ کرائے کے امیدواروں کی بجائے جماعت کے کارکنان کو تیار کریں تاکہ ملک وقوم کو بہتر قیادت دی جائے جو عوامی مفادت اور حقوق کا تحفظ کریں۔ خدا را محض سیاست گردی نہ کی جائے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔