لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافی احمر شاہین کیساتھ گذشتہ دنوں افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ مبینہ طور پر ان کو اسلحے کے زور پر گاڑی سے اتار کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔
اپنے ساتھ پیش آئے واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے احمر شاہین نے کہا ہے کہ میں گذشتہ ماہ 30 جون کو رات تقریباً 45: 11 منٹ پر لاہور کے علاقے سوئی گیس ایریا سے گزر رہا تھا کہ اچانک دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اسلحے کے زور پر میری گاڑی کو روکا اور مطالبہ کیا کہ اپنا لیپ ٹاپ اور فون ہمارے حوالے کردو۔
صحافی احمر شاہین کا کہنا تھا کہ میں نے جلدی سے اپنا فون سیٹ کے نیچے چھپا دیا اور ان سے کہا کہ وہ میرا پرس لے جائیں لیکن ملزموں نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ اس دوران ایک ملزم نے گاڑی کا شیشہ توڑ کر لیپ ٹاپ اٹھا لیا۔
احمر شاہین کا کہنا تھا کہ مجھے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے میرا سر زور زور سے کار کی ونڈ سکرین پر مارا گیا جس سے میرا سر پھٹ گیا اور اس سے خون بہنے لگا۔ اس موقع پر ملزمان نے مجھ پر سیدھی گولیاں بھی چلائیں جو گاڑی کو لگیں۔ یہ کارروائی کرنے کے بعد دونوں ملزمان موقع سے فرار ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے موقع پر ہی متعدد مرتبہ ہیلپ لائن پر کال کرکے پولیس کو مدد کیلئے بلانے کی کوشش کی تو مجھے کہا گیا کہ اہلکار فوری طور پر موقع پر پہنچ رہے ہیں لیکن میں اس جگہ تقریباً دو گھنٹے کھڑا رہا لیکن کوئی نہ آیا۔
ان کا کہنا کہ میں نے انتظار بے سود جانتے ہوئے واپسی کی راہ لی تو راستے میں ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس افسر ملے جن کو میرے اپنی ساری روداد سنائی لیکن انہوں نے وقوعہ کا غلط اندراج کیا اور یہ تک نہ لکھا کہ میں اس واقعے میں زخمی ہو چکا ہوں۔
صحافی نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں اور حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ میں اپنے چھینے گئے ڈیٹا کے بارے میں بہت فکر مند ہوں کیونکہ یہ میرے اور میرے کام کے لیے بہت زیادہ قیمتی ہے۔
خیال رہے کہ حملے سے دو روز قبل احمر شاہی نے ایک ویڈیو میں الزام عائد کیا تھا کہ اپوزیشن کے ایک اہم رہنما کرپشن کے معاملے میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں ملک میں جاری سیاسی بحران پر بھی بیانات دیتے رہے ہیں۔
رائیونڈ پولیس سٹیشن نے احمر شاہین کیساتھ پیش آئے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کیس میں احمر شاہین نامی صحافی پر حملے کی نہیں بلکہ ڈکیتی معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب احمر شاہین نے کہا ہے کہ ان کے اہلخانہ کی جانب سے پولیس کو تفتیش کے بارے میں اپ ڈیٹ کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں ملا ہے۔