مہربانوں کی مہربانیاں: میاں صاحب اگر ’ان‘ کو ناراض نہ کرتے تو آج چوتھی دفعہ وزیر اعظم ہوتے

مہربانوں کی مہربانیاں: میاں صاحب اگر ’ان‘ کو ناراض نہ کرتے تو آج چوتھی دفعہ وزیر اعظم ہوتے
سال 2013 کے انتخابات کے نتیجہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت سے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتیں بنائیں جبکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتیں بنیں۔ بلوچستان میں ہمیشہ کی طرح مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

نواز شریف کیونکہ پہلے بھی دو بار وزیراعظم رہ چکے تھے اس لئے کاروبار حکومت چلانے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے۔ اس وقت حکومت کے سامنے بڑے بڑے مسائل میں ملک کی معاشی حالت میں بہتری، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے ملک کو نجات دلانا اور امن و امان کی خراب صورتحال سے نمٹنا تھے۔ حکومت نے ان تینوں مسائل پر ہنگامی طور پر کام کرنا شروع کیا اور ہر گزرتے دن کیساتھ حالات میں بہتری آتی چلی گئی۔ نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی 2 نومبر 2007 کے اقدام پر سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف ریفرنس عدالت بھیج دیا اور یہیں سے 'مہربانوں' کے کان کھڑے ہو گئے۔ اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھنے والوں کیلئے میاں صاحب کا یہ فیصلہ کسی صورت قابل قبول نہیں تھا۔ میاں صاحب پر ریفرنس واپس لینے کیلئے دباؤ ڈالا گیا لیکن وہ نہ مانے اور ان کے اس اقدام سے اسٹیبلشمنٹ نے بھانپ لیا کہ میاں صاحب سویلین بالادستی کیلئے چل پڑے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کیونکہ ہمیشہ اپنے مہرے تیار رکھتی ہے اس لئے عمران خان اور ماضی میں آزمائے ہوئے طاہر القادری کو اسلام آباد کی جانب کوچ کا حکم ملا تو سازشیوں کے چہروں پر بھی کچھ رونق آئی۔ اسلام آباد کے ڈی چوک پر پڑاؤ ڈالا گیا اور آئین و قانون میں دیے گئے احتجاج کے تمام ضوابط کو پس پشت ڈال کر وہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا کہ ساری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔ ایوان صدر کا گیٹ توڑنے کی کوشش ہوئی، موقعہ پر موجود غیر مسلح پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا لیکن 'مہربانوں' کے سپاہیوں نے جو موقعہ واردات پر موجود تھے نظریں پھیر لیں۔ سپریم کورٹ کے جنگلے پر شلواریں لٹکائی گئیں، ججز کو عدالت تلاشی کے بغیر نہیں جانے دیا گیا لیکن ججز نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پی ٹی وی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا اور اس کی نشریات بند کر دی گئیں لیکن ہمارے 'مہربانوں' نے قبضہ تو ختم کر وا دیا لیکن بلوائیوں کو گرفتار نہیں کیا۔ سی پیک پر دستخط کرنے کیلئے چین کے صدر کو آنا تھا لیکن دھرنے کے باعث انہیں اپنا دورہ موؑخر کرنا پڑا۔ اس درمیان پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا سانجہ پیش آیا اور مجبورأ اس کھیل کو بند کرنا پڑا۔

سی پیک پر دستخط ہو چکے تو 'مہربانوں' کی رال ٹپکنے لگی اور دباؤ ڈالا کہ یہ منصوبہ انہیں دیا جائے لیکن میاں صاحب راضی نہ ہوئے۔ جنرل راحیل شریف کے ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے لئے کہا گیا لیکن میاں صاحب نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ یہ تمام باتیں ہمارے 'مہربانوں' کیلئے چیلنج بن گئیں اور سازشیں مزید تیز ہو گئیں۔ نواز شریف نے اپنے وزارا کو ہدایت دی کہ کسی بات پر کان نہ دھریں اور اپنے کام کو جلد سے جلد مکمل کرنے کی کوشش کریں۔ ملک میں آئے روز کے دھماکے اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا اور یوں امن و امان کی صورتحال میں واضع بہتری آئی۔ اسٹیبلشمنٹ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار تھی اور اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح میاں صاحب کو قابو کیا جائے کہ پانامہ پیپرز کا شور اٹھا۔ گو کہ اس میں نواز شریف کے بیٹوں کا نام تھا خود ان کا نہیں تھا لیکن ملبہ ان پر ڈال دیا گیا۔ میاں صاحب نے خود کیس عدالت عظمیٰ بھیج دیا جو کہ میری ناقص رائے میں بہتر فیصلہ نہیں تھا۔

عدالتیں کتنی آزاد تھیں اس کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کا راولپنڈی بار سے خطاب یوٹیوب پر موجود ہے۔ پانامہ میں عدالت کو منی لانڈرنگ کا تو کوئی ثبوت نہیں ملا البتہ پانامہ کے پاجامہ سے اقامہ برآمد کر کے انہیں نااہل کر دیا گیا۔ میاں نواز شریف کتنے کرپٹ تھے اس کے لئے موجودہ حکومت کے وزیر داخلہ (جو خود بھی 'مہربانوں' میں سے ہیں) کا سینئر صحافی عارف نظامی کو دیا گیا انٹرویو ہی کافی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ میاں صاحب اگر 'ان' کو ناراض نہ کرتے تو آج چوتھی دفعہ وزیر اعظم ہوتے۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔