کراچی کا ایک کھیلوں کا میدان جہاں زندہ انسانوں کو پول سے لٹکا کر آریوں سے چیرا جاتا تھا

کراچی کا ایک کھیلوں کا میدان جہاں زندہ انسانوں کو پول سے لٹکا کر آریوں سے چیرا جاتا تھا
تشدد انفرادی سطح پر ہوتو انسانی زندگی کے تشخص کو یوں داغتا ہے کہ انسان اس کے اثر سے کبھی نہیں نکل پاتا۔ اور اگر یہ  اجتماعی طور پر معاشرے میں راسخ ہو تو پھر پورا معاشرہ کی فکر و ذکر کسی خراب ہوئے زخم کی مانند ہوجاتی ہے جسے یوں ہی چھوڑ دینا سخت اذیت کا باعث بنتا ہے اور اسے ختم کرنے کے لئے اکثر خطرناک جراحی کی ضرورت پڑتی ہے جس میں کئی بار مریض ہی متاثر ہوتا ہے۔

یہ مثال گذشتہ اڑھائی دھائیوں میں کراچی میں ہونے والے منظم تشدد، قتل و غارت اور انسانیت  سوز جرائم پر صائب آتی ہے۔ تاہم روزانہ  ذبح ہوتے، گولیوں سے چھلنی ہوتے اور اغوا کاروں کے ہاتھوں موت کی سولی پر چڑھتے کراچی کے باسیوں کے لئے ایک دھائی تک کراچی کا ایک ایسا علاقہ خوف و دہشت کی علامت بنا رہا جہاں روز مرہ تشدد کے واقعات کے معمول کے شاہد بھی جانے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ یہ جگہ تھی، کراچی کا بدنام زمانہ خونی کھجی گراؤنڈ، جہاں کے فٹبال گول پوسٹ زندہ لوگوں کو لٹکا کر آریوں سے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ 

یہ کوئی ہالی ووڈ کی بلاک بسٹر کرائم سیگا نہیں نہ ہی یہ ممبئی شہر کی انڈر ورلڈ پر مبنی انوراگ کیشپ کی کسی فلم کی کہانی بلکہ کراچی میں  قتل و غارت گری کے لئے عام استعمال ہونے والا مذبحہ خانہ کی کہانی ہے  جہاں روز ہی انسان کاٹے جاتے تھے۔

کراچی کے ضلع وسطی کو شہر کے مشرقی حصے سے علیحدہ کرنے والے لسبیلہ چوک سے اگر گولیمار (گلبہار)  کی جانب بڑھیں تو ناظم آباد چورنگی کی سمت جانے والی نواب صدیق علی خان روڈ پر قائم پل اترتے ہی دائیں جانب کی ایک گلی تھانہ گلبہار جاتی ہے مگر بائیں جانب کی مشہور زمانہ ’پیتل گلی‘ اور ’پھول والی گلی‘ سمیت قریباً تمام ہی گلیاں جہاں ختم ہو رہی ہیں وہاں سے شروع ہوتا ہے کھجّی گراؤنڈ ہے۔ اس میدان کی تینوں اطراف یہ انتہائی تنگ گلیاں ہیں اور چوتھی سمت ایک نالہ۔ منگھو پیر روڈ کے ہمسائے میں موجود یہ کھجی گراؤنڈ 1990 کی دہائی میں انھی تنگ گلیوں اور (قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پہنچ سے دور) اپنی جغرافیائی خصوصیات کی بنا پر تشدد اور قتل و غارت کا ایسا مرکز بنا جہاں رات کی تاریکی تو کیا دن کے اجالے میں بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار تک قدم رکھنے سے گھبرانے لگے۔ 

1987 میں بلدیہ نے باقاعدہ قرارداد منظور کر کے یہاں نوجوانوں کو فٹبال اور ہاکی کھیلنے کی سہولت دینے کی خاطر ایک کمیونٹی کمپلیکس قائم کرنے کی منظوری دی تھی۔  کمیونٹی کمپلیکس کے اس منصوبے کی تکمیل دو برس میں ہونی تھی۔مگر  آئندہ دو برسوں میں کھیلوں کا کمپلیکس تو نہیں بن سکا مگر آئندہ دو نسلوں نے یہاں قتل و غارت کا وہ کھیل دیکھا جس کی یادیں اب بھی انکی یاداشت میں آسیب کی طرح ڈیرے ڈالے ہیں۔

اس زمانے کے ایسے تمام پولیس افسران جو اس وقت کھجی گراونڈ میں ہونے والی واردتوں کی تحقیقات کرتے رہے یا اس علاقہ کے تھانہ میں ہی تعینات رہے ان میں تقریباً 90  فیصد یہ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایسے ہی کراچی پولیس کے کئی افسروں نے اپنی تکلیف دہ یادوں کو پھر سے کریدتے ہوئے بتایا کہ مخالفین کو اغوا کر کے یہاں لانا ہو یا یہاں قتل کر کے ان کی لاشوں کو  بوری میں بند کر کے کہیں اور لے جانا یا پھر یہیں گول پوسٹ کے کھمبوں سے لٹکا دینا، کچھ بھی محض چند منٹ میں کیا جا سکتا تھا۔

اکثر وارداتوں کے بعد  برآمد ہونے والے  ثبوتوں اور شواہد اور تحقیقات سے (بعد میں) ثابت ہوا کہ کھجّی گراؤنڈ میں قاتل اپنے شکار کو قتل کرتے وقت جو اذیت دیتے تھے اِس میں اُن بےرحم قاتلوں کو ایک طرح کی لذت حاصل ہونے لگتی تھی۔

وہ قتل کرنے سے پہلے اپنے شکار کو پورے میدان میں بھگاتے تھے۔ اس پر ایسا تشدد کرتے تھے کہ اس کی چیخوں سے اہل علاقہ کے دل دہل جاتے اور وہ قاتل ان چیخوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ پھر اسے مار کر لاش کھمبے سے لٹکا کر خود بھی نشے میں چلاتے تھے۔ زندہ حالت میں آریوں سے ٹکڑے کرتے وقت کٹنے والے کی چیخوں کے قصّے فخر سے اپنے دوستوں کو سناتے تھے۔

پھر ان قتل و غارت کرنے والے عناصر نے کھیلوں کے اس میدان میں موت کو ہی کھیل بنا لیا۔ زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے، گول پوسٹ سے لٹکا کر ان کو زندہ اورمردہ حالت میں بکروں اور جانوروں کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹ ڈالا جاتا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دی جاتی، گلے کاٹ کر ذبح کیا جاتا تھا اور آنکھوں میں ایلفی ڈال کر آنکھیں چپکا دیتے تھے۔ 

بی بی سی لکھتا ہے کہ عجیب بات یہ ہے کہ کھجّی گراؤنڈ میں تشدد اور موت کا سامنا کرنے والوں کی یہ چیخیں سات سمندر پار برطانیہ میں بی بی سی اور امریکہ میں سی این این اور واشنگٹن پوسٹ کے نیوز رومز تک تو پہنچیں مگر ایک سڑک پار کر کے گلبہار تھانے تک نہ پہنچ سکیں۔ اسکےمحرکات میں  ایک تو یہ شبہ تھا کہ ان عناصر کو طاقت اور اسلحہ حاصل کرتے وقت خاموش تماشائی بنے رہنے والے ریاستی اداروں کی پشت پناہی  حاصل ہے۔  کیونکہ اگر ان عناصر کے سرپرست اُس وقت تک ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے تو عین ممکن تھا کہ ان کی سیاسی طاقت کے بل پر اس وقت پاکستان کے مخصوص سیاسی حالات کے تناظر میں ان کی حکومت کہیں گھر نہ بھیج دی جائے۔ اس لیے سیاسی حکومت انتظامی فیصلوں سے ہچکچاتی رہی۔ دراصل عزم کی کمی تھی۔ تھانہ گلبہار میں رات کے بعد کسی کو آنے نہیں دیا جتا تھا اور پولیس صرف تھانے میں خود کو بند کیئے ہوئے تھی۔

کھجی گراونڈ میں ہر پارٹی کے ورکرز نے اذیت ناک موت پائی۔ بظاہر یہ علاقے جیتنے کی جنگ تھی تاہم اس کے پیچھے سیاسی جماعتوں کے ہاتھ ہونے کا الزام لگتا جسے سیاسی جماعتیں ریاستی عناصر کی جانب اچھال دیتیں۔ 

لیکن پھر بالآخر اس بربریت کے وحشی کھیل سمیت پورے کراچی کو قتل و غارت سے آزادی دینے کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے پولیس افیسر شعیب سڈل کو کراچی میں تعینات کیا۔ جبکہ اس وقت کے وزیر داخلہ جنرل بابر کو اس آپریشن کی مجموعی کمان سونپی گئی۔ اس آپریشن نے بڑی حد تک کراچی کو کلئیر کردیا لیکن یہ جلد ہی ماورائے  قانون گرفتاریوں قتل اور زیادتیوں کے باعث متنازعہ ہوگیا۔

آج کھجی گراؤنڈ اپنی ہیبت اور کراہت کے حوالے سے کچھ  خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ تاہم بیہمانہ تشدد کے متاثرین کی روحیں شاید ان کے آخری تکلیف دہ لمحات کے شاہدین کو اب  بھی انکی یادوں میں چیختی چلاتی مل جایا کرتی ہیں۔ 

بشکریہ بی بی سی اردو