ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج ٹیپو کے قتل کا مقدمہ مقتول کے بھائی امیر مصعب کی مدعیت میں تھانہ چوہنگ میں درج کروا دیا گیا ہے۔ مقدمہ خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ، خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ اور 4 نامعلوم افراد کے خلاف درج کروایا گیا۔ مقتول امیر بالاج ٹیپو کے بھائی مصعب کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کی گئی۔ پنجاب میں جو قتل و غارت شروع ہوئی ہے یہ بہت بھیانک صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو پنجاب بھر میں گینگ وار شروع ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ کہنا ہے صحافی شہزاد حسین بٹ کا۔
حالیہ وی لاگ میں شہزاد حسین بٹ نے بتایا کہ ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج ٹیپو کو سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ نماز جنازہ میں عزیز و اقارب کے علاوہ بڑی تعداد میں سماجی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔ مقتول کے دو بیٹے ہیں، امیر ہادی 6 سال کا جبکہ امیر ہمدان 3 سال کا ہے۔ امیر بالاج کے دو بھائی ہیں، ایک امیر مصعب اور دوسرا فتح۔ امیر مصعب وکیل ہیں اور بھائی کے قتل کیس میں مدعی بھی ہیں۔ چھوٹا بھائی بھی وکالت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بالاج ٹیپو کو خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کی ایما پر 4 نامعلوم افراد نے قتل کیا۔ واقعہ میں ملوث افراد فائرنگ کر کے موقع سے فرار ہو گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق حملہ آور مظفر حسین اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔
صحافی کے مطابق یہ دشمنی 1950 کی دہائی میں شروع ہوئی۔ نتھو پہلوان نامی شخص پرانے لاہور میں تانگہ چلاتا تھا۔ ایک روز نتھو پہلوان جب شاہ عالم چوک سے لوہاری مسجد جا رہا تھا تو کسی نامعلوم شخص نے خنجر سے حملہ کر کے اسے قتل کر دیا۔ نتھو پہلوان کے قتل کے بعد ان کا بیٹا امیرالدین عرف بلا ٹرکاں والا منظر عام پر آیا جس نے 3 دیگر بااثر افراد کے ساتھ مل کر ایک گروپ بنا لیا۔ اس گروپ میں فیصل آباد سے پیپلز پارٹی کی جانب سے منتخب رکن اسمبلی الیاس جٹ جوٹی والا شامل تھے۔ دیگر دو افراد میں واہگہ بارڈر سے اس وقت کے ممبر صوبائی اسمبلی پیلا پہلوان جنہیں سونے کا سمگلر اور ڈان بھی کہا جاتا تھا، اور اس وقت کے ایک ایس پی سٹی بھی شامل تھے۔ یہ چاروں ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے اور بڑے عرصے تک ان کا اثر و رسوخ قائم رہا۔ یہ چاروں افراد بڑے فیصلے امیرالدین عرف بلا ٹرکاں والے کے شاہ عالم چوک میں واقع ڈیرے پر کرتے تھے۔ اس ڈیرے کے ساتھ بلا ٹرکاں والے کی اہلیہ کے بھائیوں سلطان محمود عرف بھئی اور بچھو پہلوان کا ڈیرہ بھی تھا۔ امیرالدین عرف بلا ٹرکاں والے کی دو بیویاں تھیں۔ ایک بیوی میں سے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا اور دو بیٹیاں تھیں۔ دوسری بیوی میں سے ایک بیٹا ناصر امیر تھا جو بعد میں امریکہ چلا گیا اور وہیں قیام پذیر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس دوران بلا ٹرکاں والے کی حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا نامی دو سگے بھائیوں سے دشمنی شروع ہوئی۔ یہ دونوں بھائی ماضی میں بلا ٹرکاں والے کے گن مین بھی رہ چکے تھے۔ جب دونوں بھائیوں کی بلا ٹرکاں والے کے ساتھ مخالفت بڑھی تو حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا کے اہلخانہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ غم و غصے کے عالم میں دونوں بھائیوں نے امیرالدین عرف بلا ٹرکاں والے کو نماز فجر کے وقت قتل کر دیا۔
اس قتل کے بعد بلا ٹرکاں والے کے بیٹے عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والے نے باپ کی جگہ لے لی۔ ٹیپو ٹرکاں والے کی حنیف عرف حنیفا اور شفیق عرف بابا نامی دونوں بھائیوں کے خاندان کے ساتھ دشمنی چل پڑی۔ اس دوران ایک روز جب ٹیپو ٹرکاں والا ایک مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت میں پیش ہوا تو عدالت میں اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی۔ فائرنگ کے نتیجے میں 5 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ ٹیپو ٹرکاں والا اس موقع پر مجسٹریٹ آفس میں موجود ہونے کی وجہ سے اس حملے میں محفوظ رہا۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ٹیپو ٹرکاں والے نے دبئی میں ہوٹل بنا لیا جس کی وجہ سے اس کا لاہور سے دبئی آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک روز جب وہ دبئی سے لاہور ایئرپورٹ پہنچا تو ایئرپورٹ کی پارکنگ میں خرم نامی ایک شخص نے اسے بھی قتل کر دیا۔ خرم اس وقت جیل میں قید ہے اور سزا کاٹ رہا ہے۔ پہلے اسے سزائے موت سنائی گئی تھی لیکن سزا کے خلاف اپیل دائر کی گئی جس کے نتیجے میں اسے 25 سال کی قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ ٹیپو ٹرکاں والے کے قتل کو قریب قریب 14 سال ہو گئے ہیں اور غالباً ایک یا دو سال میں خرم کی سزا پوری ہو جائے گی جس کے بعد وہ رہا ہو کر باہر آ جائے گا۔
امیر بالاج ٹیپو کے قتل کے لیے خواجہ تعریف گلشن عرف طیفی بٹ اور خواجہ عقیل عرف گوگی بٹ کو نامزد کیا گیا ہے۔ امیر بالاج نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میرا باپ قتل ہو گیا ہے اور دشمنی کا یہ ڈھول میرے گلے میں ڈال گیا ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے امیر بالاج ٹیپو نے کہا تھا کہ میری مجبوری ہے کہ مجھے یہ ڈھول بجانا ہی پڑے گا۔
صحافی نے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور ممکنہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے درخواست کی کہ پورے پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں جو بڑی دشمنیاں ہیں، ان لوگوں میں کسی صورت صلح کروائی جائے۔ مسلم لیگ ن کے ایم پی اے خواجہ عمران نذیر نے ایک بار یہ قدم اٹھایا تھا۔ انہوں نے متعدد لوگوں کی صلح کروائی تھی اور یہ صلح کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی تھی۔ میری درخواست ہے کہ بااختیار لوگ ان بڑی دشمنیوں کو ختم کروائیں کیونکہ یہ جو بڑے لوگ ہیں یہ باقاعدہ طور پر کرائم یونیورسٹیاں ہیں اور نئی نسل انہی یونیورسٹیوں سے سیکھنے کے بعد گینگ وار میں شامل ہوتی ہے۔ اس قتل کے بعد پنجاب میں بھر میں گینگ وار شروع ہونے کا خدشہ ہے۔