ڈی ڈبلیو اردو کے مطابق مصر میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے، جس نے پابندی کے باوجود اپنی تین بیٹیوں کو جھانسہ دے کر ان کے ختنے کرا دیے، اس عمل کو سر انجام دینے والے ڈاکٹر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔
مصر میں واقع خواتین کے سینٹر برائے مشاورت و قانونی آگاہی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رضا الدنبوقی نے بتایا ہے کہ تین بچیوں کے تولیدی جنسی اعضا کاٹنے کا یہ واقعہ صوبہ سوہاگ کے ضلع جھینہ میں گذشتہ ہفتے کو رونما ہوا۔
انہوں نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ شخص اپنی تین بیٹیوں کو جھانسہ دے کر ایک کلینک لے گیا کہ کرونا وائرس کے خلاف ان کی ویکسین کرانا ہے۔ ان بچیوں کی عمریں آٹھ، نو اور گیارہ برس بتائی گئی ہیں۔ جب یہ بچیاں بے ہوشی کے بعد بیدار ہوئیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ویکسین کے بجائے ان کے تولیدی جنسی اعضا کاٹ دیے گئے ہیں۔
بعدازاں بچیوں نے موقع ملنے پر ماں کو بتایا تو اس نے مقامی پولیس میں رپورٹ درج کرا دی۔ جس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ان بچیوں کے والد اور ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔
دفتر استغاثہ نے تصدیق کی ہے کہ فرانزک تفتیش سے معلوم ہو گیا ہے کہ بچیوں کا والد اور ڈاکٹر اس غیر قانونی عمل میں ملوث تھے۔ اگر عدالت میں یہ جرم ثابت ہو جاتا ہے تو والد کو آٹھ جبکہ ڈاکٹر کو سات برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ مصر میں 2008 میں خواتین کے تولیدی جنسی اعضا کو کاٹنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا جبکہ 2016 میں اس تعزیراتی جرم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ تاہم مصر میں ایک بڑا قدامت پسند حلقہ اس پریکٹس کے حق میں ہے۔ مسیحی اور مسلمان دونوں ہی بچیوں کے جنسی ختنے کراتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ کسی بھی مذہب میں اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قبائلی اور نسلی روایات سے جا ملتی ہیں۔