نور عالم خان کے زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزارت داخلہ کے سال 2019-20 کے آڈٹ پیراز کا جائزہ لیا گیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو آڈٹ حکام نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے کے ریکارڈ سے پتہ چلا کہ ریونیو کی شارٹ فال سے ملکی خزانے کو 19 ارب کا نقصان ہوا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکریٹری داخلہ سے پوچھا اس پیرے پر کیا کریں؟ سیکریٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ اس پر آزادانہ انکوائری کرا دیں۔ سی ڈی اے حکام نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کردیں جو ملوث ہونگے، سامنے آجائیں گے۔
کمیٹی نے ڈی جی ایف آئی اے کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو پیش ہونے کی ہدایات جاری کئے۔ کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ 19 ارب نقصان کا ڈاکومنٹ سی ڈی اے کو فراہم کریں۔
چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین سی ڈی اے کو ہدایت دیتے ہوئے کہا جس نے انکوائری نہیں کی اس کی پروموشن روک دیں۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ اگر کسی افسر کی کوتاہی ہے تو اس کیخلاف کاروائی کرینگے لیکن 19 ارب کا نمبر نہیں ہوسکتا کیونکہ اتنا تو ادارے کا بجٹ بھی نہیں تھا۔
ممبر کمیٹی سید حسین طارق نے کہا کہ اس معاملے میں فنانشل فراڈ نظر آرہا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی ڈی اے کو ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کے ملازمین اپنے مالی اثاثے ظاہر کریں اور سب سے پہلے گریڈ 17 سے بائیس تک کے افسران اپنے اثاثے ظاہر کریں۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے افغان مہاجرین کے جعلی دستاویزات کے ذریعے شناختی کارڈ بنانے کے معاملے پر بحث ہوئی۔ چیئرمین کمیٹی نے چیئرمین نادرا سے پوچھا کہ ملک بھر میں جعلی دستاویزات کے ذریعے افغان مہاجرین کے شناختی کارڈ بنائے گئے اور اس عمل میں نادرا کے لوگ ملوث ہیں آپ نے کوئی کاروائی کی ہے ؟
چیئرمین نادرا نے کمیٹی کو بتایا کہ اس جرم کی پاداش میں 377 ملازمین اور افسران کو نوکری سے نکالا گیا ہے۔ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے نہ آنے پر چیئرمین کمیٹی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ڈی جی ایف آئی اے اور ڈپٹی کمشنر کو بلا لیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزیراعظم کے سپیشل سیکرٹری کو لکھیں کہ ڈپٹی کمشنر کو او ایس ڈی بنا دیں کیونکہ اس کو کوئی فکر نہیں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے۔ ڈپٹی کمشنر کے کمیٹی میں پیش ہونے پر چیئرمین کمیٹی نور عالم خان اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔
ڈپٹی کمشنر کے کمیٹی میں بیٹھنے پر چیئرمین کمیٹی نے اعتراض کرتے ہوئے ان سے پوچھا، آپ سے پوچھا ہے کہ آپ بیٹھیں گے، آپ کھڑے ہوجائیں، آپ کیلئے آدھا گھنٹہ انتظار کریں گے؟ آپ کسی کے لاڈلے ہونگے میرے نہیں۔
ڈپٹی کمشنر نے چیئرمین پی اے سی کے ردعمل پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ پرسنل ہو رہے ہیں میں کورٹ میں تھا۔ کمیٹی چیئرمین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو کہا کہ آگر آپ بیٹھنا نہیں چاہتے تو آپ جا سکتے ہیں۔
وزیر سیفران طلحہ محمود نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے ان کو ان کو سن لیں۔ کمیٹی نے ڈپٹی کمشنر سے پوچھا آپ نے افغان مہاجرین کیلئے کیا کیا؟ ڈپٹی کمشنر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ باہر جانا چاہتے ہیں اور اس پر بین الاقوامی کمیونٹی اور انسان حقوق کے لوگ کام کر رہے ہیں لیکن میرے پاس یہ راستہ بچتا ہے کہ ان کو یہاں سے اٹھا دوں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سب سے پہلے ان کی بائیو میٹرک اور رجسٹریشن کرا لیں اور چیک کرلیں ان میں کوئی پاکستان دشمن عناصر تو نہیں ہے۔