سبزیوں کی سمگلنگ ایک بار پھر شروع

پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے ساتھ ہی منڈیوں میں سمگل شدہ سبزیاں فروخت ہونے لگیں

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ دنوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے باعث دونوں ملکوں میں ایک بار پھر سبزیوں کی سمگلنگ کا آغاز ہو گیا ہے۔

ملک کے مشرقی پڑوسی ملک سے سمگل شدہ لہسن لاہور کی سبزی منڈیوں میں فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کی سبزی منڈی میں لہسن کے دو ٹرک چند گھنٹوں میں ہی فروخت ہو گئے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث ایل او سی  پر ہونے والی دو طرفہ تجارت بند ہو گئی تھی لیکن مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان ایک بار پھر تجارت کا آغاز ہو گیا ہے اور ٹماٹروں اور سبزیوں سے لدے ٹرک راولپنڈی اور لاہور کی سبزی منڈیوں کا رُخ کر رہے ہیں۔



لاہور کی سبزی منڈی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لہسن سے لدے ٹرکوں میں 50 کلو لہسن کی دو سو بوریاں تھیں۔ سبزی منڈی کے ایک ہول سیلر نے لہسن منگوایا تھا جس کے باعث مقامی تاجروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ تاجروں کی مقامی تنظیم کی جانب سے انڈیا کی مخالفت میں پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے تھے جس کے  باعث صرف چند ہول سیلر ہی سمگل شدہ سبزیاں فروخت کر رہے ہیں۔

لاہور کی بادامی باغ  کی پھل و سبزی منڈی کی انجمنِ تاجران کے صدر چودھری محمود نے کہا کہ آزاد اور مقبوضہ کشمیر سے پھل اور سبزیاں سمگل کرکے پنجاب لائی جا رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بارے میں محکمہ کسٹمز کے چیف کلکٹر کے علاوہ متعدد اعلیٰ حکام کو تحریری درخواست دی ہے لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انڈین سبزیوں سے لدے ٹرک مبینہ طور پر کسٹم حکام کو رشوت دے کر پنجاب لائے جا رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے اسسٹنٹ اور ٹاسک فورس برائے پرائس کنٹرل کے سربراہ چودھری اکرم نے کہا کہ آزاد اورمقبوضہ کشمیر کے درمیان بارٹر تجارت شروع ہو چکی ہے۔



انہوں نے یہ جواز پیش کیا کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والی اجناس کشمیریوں کی ضرورت سے زیادہ ہوتی ہیں جس کے باعث وہ استعمال نہیں ہو پاتیں اور یوں یہ اجناس لاہور اور دیگر منڈیوں میں پہنچ جاتی ہیں۔

چودھری اکرم نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سے آلو بارٹر تجارت کے باعث مقبوضہ کشمیر سمگل ہو رہے ہیں۔