دیگر شہروں سے تحصیل پھنڈر آلو کاشت کرنے کے لیے آنے والے ٹھیکیداروں اور ان کے مزدوروں کے مسئلے کو غلط رنگ دینے کی کوشش ہو رہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ چند افراد کا خیال ہے کہ ہم کسی نسلی،علاقائی یا کسی اور تعصب میں پھنڈر جانے والے آلو کے ٹھیکیداروں کے خلاف کمپین چلا رہے ہیں۔ یہ تاثر سراسر غلط اور حقائق کے منافی ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے مخلتف جگہوں سے لوگ پھنڈر میں آلو کاشت کے لیے آتے رہے ہیں، جن میں گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع اور دیگر شہروں کے افراد شامل ہیں۔ اس دفعہ ان کی مخالفت اس لیے ہو رہی ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے پوری دنیا متاثر ہے۔ اس لیے بالعموم ضلع غذر بالخصوص تحصیل پھنڈر کے عوام کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس نازک وقت میں اتنی بڑی تعداد میں غیر مقامی افراد کو وادی میں داخل ہونے سے روکے۔
اطلاعات کے مطابق 41 سے زیادہ افراد پشاور یا دیگر شہروں سے پھنڈر کے لیے روانہ ہو چکے تھے، ان میں سے کرونا ٹیسٹ کے بعد بیس کے قریب کل شام تک پہنچ گئے ہیں۔ باقی جانے کی تیاری میں ہیں۔ ہمارا یہ مؤقف ہے کہ اتنے زیادہ افراد پشاور یا دیگر شہروں سے ٹیسٹ کر کے کئی گھنٹے سفر کر کے پھنڈر پہنچ گئے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی راستے میں کرونا وائرس کا شکار ہوگیا ہو اور پشاور کے اس ٹیسٹ کی بنیاد پہ پھنڈر پہنچ گیا تو اس سے علاقے میں وبا پھیل جانے کے امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے پھنڈر کے عمائدین اور نوجوانوں کی مشترکہ قرارداد چیف سیکریٹری، کمشنر گلگت ڈویژن، ڈی سی غذر، میڈیا کے دوستوں اور اے سی گوپس پھنڈر کو واٹس ایپ کے ذریعے پہنچا دی ہے۔
اس قرارداد میں ہم نے یہ واضح کیا ہے کہ فوری طور پر ان ٹھیکیداروں کا گلگت میں ٹیسٹ کیا جائے، ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد ان کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ ٹھیکیدار حضرات مقامی لوگوں کو مزدوری کے لیے لے سکتے ہیں کیونکہ 41 مزدوروں کا ٹیسٹ کرانا محکمہ ہیلتھ گلگت بلتستان کے لیے ممکن نہیں۔ اس لئے ان مزدوروں کو فوری واپس بھیجا جائے۔ مجھ سمیت تحصیل پھنڈر کے نوجوان اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم باشعور شہری کے طور پر گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے کئے گئے حفاظتی اقدامات کے پیش نظر یہ بھی جانتے ہیں کہ خدانخواستہ یہ افراد بیماری لے کر آ گئے تو حالات کو کنٹرول کرنا حکومت اور انتظامیہ کے لیے بہت مشکل ہو گا۔ اس لیے حالات کی نزاکت کا خیال رکھتے ہوئے گلگت بلتستان حکومت اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کریں۔
ٹھیکیداروں کو واپس گلگت لاکر ان کا کرونا ٹیسٹ کیا جائے ٹیسٹ رپورٹ آنے تک ان کو قرنطینہ کیا جائے۔ ٹیسٹ رپورٹ آنے کے بعد وہ پھنڈر جا کر کام کرسکتے ہیں۔ ان ٹھیکیداروں کے تمام مزدور کو واپس بھیجا جائے۔ آلو کاشت کرنے والے ٹھیکیدار حضرات مقامی مزدوروں کے ذریعے اپنا کام کرسکتے ہیں۔ کل ہم نے اس مسئلے کے حوالے سے ڈی سی غذر سے ملاقات کی۔ راقم کے علاوہ ، پی ٹی آئی غذر کے رہنما موسی مدد اور شاہ حسین شاہ نے جب ڈی سی غذر سے ملاقات کر کے اس مسئلے پہ بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اس مسئلے پہ میں کوئی بات کرنا نہیں چاہ رہا ہوں کیونکہ بقول ان کے وزیر سیاحت فدا خان فدا اور غلام محمد کی ان سے بات ہوئی ہے۔
اس تحریر کی وساطت سے یہ بات ہم عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں کہ ان ٹھیکیداروں اور مزدوروں کی وجہ سے غذر میں کرونا وائرس پھیل گیا تو سب سے پہلے وزیر سیاحت فدا خان فدا اور غلام محمد ذمہ دار ہوں گے۔ میرے خیال میں انتظامیہ کو جو بات ناگوار گزری ہے وہ عمائدین اور نوجوانوں کی قرارداد میں سرکاری افسران کی پکنک منانے کا ذکر ہے۔ بیوروکریسی کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہے جو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کریں۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سرکاری افسران اس وقت پکنک منانے سے گریز کریں۔ ہم وزیراعلی سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا فوری نوٹس لیکر معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔
مقامی عمائدین اور نوجوانوں نے حکومت اور انتظامیہ کو تین دن دے دیے ہیں۔ تین دن کے اندر اندر اس مسئلے کو حل نہ کرنے کی صورت میں ہم پھنڈر میں دھرنا دیں گے۔ اس وقت ٹھیکیداروں سمیت تمام افراد کے انخلا تک ہم کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے۔