Get Alerts

تیسری دنیا کا سیزر مر چکا، سپریم کورٹ اسے واپس نہیں لا سکتی

پیر علی محمد راشدی نے ایک کالم میں بھٹو کی پھانسی کو اژدہے کی بارہ سنگھے کو نگلنے کی کوشش سے تشبیہ دی تھی کہ پاکستانی ریاست نے بھٹو کو نگلنے کی کوشش کی ہے مگر نگل نہیں پا رہی۔ انصاف کے اس قتل کو عدالتی غلطی تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ کو 45 سال لگ گئے۔

تیسری دنیا کا سیزر مر چکا، سپریم کورٹ اسے واپس نہیں لا سکتی

رات کے 2 بجے تم سبھی سو چکے تھے

مگر اس کو مقتل میں لایا گیا

پشت پر ہاتھ عیسیٰ کے باندھے گئے

اس نے کچھ نہ کہا

ایلی ایلی لما

مگر اس کے آگے

اس نے کچھ نہ کہا

وہ جو منصور تھا دار پر چڑھ گیا

وہ جو ایتھنز سے پھر بلایا گیا

یہ میرے عزیز دوست اور جلاوطن شاعر منور مسعود کی اس مشہور نظم کی آخری سطریں ہیں جو انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے آخری لمحوں اور ان کی پھانسی والی رات پر لکھی تھی۔

ملک کے مقبول ترین لیکن معزول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے کیس میں سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں قرار دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ میں قتل کے مقدمے اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل پر فیئر ٹرائل یا انصاف کے حصول میں شفافیت کا حق نہیں ملا۔ یہ فیصلہ نا صرف انصاف کے قتل سے تاریخ کا کفن اتارتا ہے بلکہ بہت ہی بڑے زخم کو بھی تازہ کر دیتا ہے۔ اگرچہ میں ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی بڑا مداح نہیں رہا لیکن میں ان کی پھانسی کو بالکل ایک عدالتی قتل ہی سمجھتا ہوں اور ملک کے عظیم المیوں میں سے ایک گردانتا ہوں۔ اس عظیم المیے کے بعد ملک بحران در بحران میں دھنستا ہی چلا گیا۔

جب ترکی کے وزیر اعظم عدنان میندرس کو جنرل گرسل کی حکومت نے پھانسی کی سزا سنائی تو پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان نے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر اعظم عدنان میندرس کی جان بخشی کے لیے جنرل گرسل سے ملنے ترکی بھیجا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گرسل سے پوچھا کہ وزیر اعظم عدنان میندرس کی پھانسی سے ترکی کو کیا حاصل ہو گا تو انہوں نے کہا تھا کہ ترکی کا بحران ختم ہو جائے گا۔ اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل گرسل سے کہا تھا کہ اصل میں ترکی کا بحران شروع ہی عدنان میندرس کی پھانسی سے ہو گا۔ ترکی کے جنرل عدنان میندرس کی جان بخشی پر تیار نہ ہوئے۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو کیا خبر تھی کہ آنے والے برسوں میں وہ خود بھی اپنے محسن کش جنرل اور اس کے ٹولے کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھا دیے جائیں گے اور اس کے بعد پاکستان پر آنے والے بحران ایسے شروع ہوں گے کہ پھر ختم ہونے کا نام بھی نہیں لیں گے۔

پیر علی محمد راشدی نے اپنے ایک کالم میں بھٹو کی پھانسی کو اژدہے کی جانب سے بارہ سنگھےکو نگلنے کی کوشش سے تشبیہ دی تھی کہ پاکستانی ریاست کے اژدہے نے بارہ سنگھے کو نگلنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اسے نگل نہیں پا رہی۔

لیکن انصاف کے اس قتل کو عدالتی غلطی تسلیم کرنے میں سپریم کورٹ کو 45 سال لگ گئے۔

؎ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

زود پشیمانی بھی ایسی کہ جس کو 45 سال لگ گئے۔ بھٹو اگرچہ جسمانی طور پر دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے لیکن پھر بھی بھٹو زندہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلی بار 'بھٹو زندہ ہے' لکھنے والے صحافی عاشق حسین جعفری کو بھی سزا اور بے روزگاریوں سے گزرنا پڑا تھا۔ یہ میرے صحافی دوست واجد علی سید کے والد تھے۔

ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پاپولر، عوام کے منتخب اور طاقتور وزیر اعظم کو بھی انصاف کے حصول کے قانونی حقوق اور مواقع نہیں دیے گئے جو ایک عام قتل کے مقدمے میں ملزم کے بنیادی حق ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قتل کے مقدمے کی سماعت سیشن کورٹ میں ہونے کا حق بھی انہیں نہ ملا۔ سیشن کورٹ کو اوریجنل جیورسڈکشن یا اصل حدود و اختیار والی ٹرائل کورٹ کہا جاتا ہے۔

جب ججوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور انہیں ترقیاں ملیں

لیکن یہاں تو بھٹو کی پھانسی پر کئی سیشن ججوں نے مٹھائی بانٹی تھیں۔ کم از کم ایک ایسے سیشن جج کو میں بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ مٹھائی تو پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے موجودہ اہم رہنما نثار کھوڑو نے بھی بانٹی تھی جو بھٹو کی پھانسی کے وقت اصغر خان کی پارٹی پاکستان تحریک استقلال سندھ کے صدر تھے۔ یہ اصغر خان ہی تھے جنہوں نے بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ کچھ سیشن ججوں کو ذاتی محفلوں میں یہ بھی کہتے سنا گیا کہ وہ بھٹو جیسے ملزمان کو قتل کے مقدموں میں یا تو بری کرتے رہے ہیں یا پھر انہیں بہت کم سزائیں دیتے آئے ہیں۔ ایک جج نے کہا کہ عدلیہ کے اس فیصلے سے ہمارا تو سر شرم سے جھک گیا۔

ایک سیشن جج جو دیانتدار تو تھا لیکن ان 1300 افسروں میں سے ایک تھا جنہیں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے برطرف کیا تھا، وہ بھٹو کے مقدمے کے دوران اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ اگر بھٹو کو پھانسی نہ ہوئی تو تم مجھے پھانسی دے دینا۔ ایسے بھی جج تھے جنہوں نے ضیاء الحق کو خوش کرنے کے لیے اپنے ڈرائنگ روموں میں جناح کے ساتھ ضیاء الحق کی تصویروں والے فریم لگا رکھے تھے۔ کئی ججوں نے داڑھیاں بڑھا لیں تو کچھ تبلیغی جماعت میں چلے گئے۔ انہی میں سے کئی ایسے تھے جنہیں ہائی کورٹ ججز کے طور پر ترقیاں ملیں۔

ضیاء الحق کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد انہیں مری کے ریسٹ ہاؤس میں نظربند رکھا گیا تھا۔ رہائی کے بعد اگر وہ راولپنڈی سے روہڑی تک بذریعہ ٹرین سفر نہ کرتے تو ضیاء الحق کی حکومت شاید ہی انہیں فوری گرفتار کرتی۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو کا اس ٹرین پر راولپنڈی تا روہڑی سٹیشن تک سفر اور سفر کے دوران ریلوے لائن کے پاس پڑنے والے ہر شہر اور ہر گاؤں میں جگہ جگہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرف سے استقبال نے جنرل ضیاء اور اس کے جرنیلی ٹولے کو تشویش ناک لہریں پہنچائیں جو سمجھتے تھے کہ بھٹو کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے۔ اب بقول شخصے صاف نظر آنے لگا تھا کہ پاکستان میں رسی ایک اور گردنیں دو ہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر 1977 کو گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری سے ایک روز قبل وہ جناح اسپتال کراچی میں دانتوں کا معائنہ کروانے آئے تھے۔ جناح اسپتال کی دوسری منزل پر واقع دانتوں کے شعبے سے جب وہ لفٹ کے ذریعے نیچے آنے لگے تو ان دنوں انگریزی اخبار 'دی سن' کے نمائندے علی احمد خان اور سندھی روزنامے 'ہلال پاکستان' سے منسلک جی این مغل بھی اس لفٹ میں سوار ہو گئے تھے۔ علی احمد خان نے بھٹو سے پوچھا کہ افواہیں ہیں کہ 'آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا؟' تو انہوں نے جواب دیا تھا، 'میں ہر وقوعے کا سامنا کرنے کو تیار ہوں'۔ بھٹو نے اس جملے میں انگریزی لفظ ‘Eventuality’ بولا تھا۔

دوسرے ہی روز دوپہر کے وقت انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ وہ قیلولہ کر رہے تھے جب ان کے بڑے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے ان کو بتایا کہ باہر ایک برگیڈیئر ان کو لینے آیا ہے۔ 'ہم نے پاپا کو اس کے بعد پھر کبھی نہیں دیکھا'، مرتضیٰ بھٹو نے بعد میں مجھے ایک انٹرویو کے دوران بتایا تھا۔

انہیں لاہور لے جا کر باقاعدہ ان کی پارٹی سے منحرف ہونے والے رہنما احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے دوسرے روز انہیں لاہور میں ایس ڈی ایم یا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت میں ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا جہاں سوائے ان کے دوست اور پارٹی کے ساتھی انور بٹر ایڈووکیٹ (جو سابق جسٹس جاوید بٹر اور ڈاکٹر آمنہ بٹر کے والد تھے اور جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے گورنمنٹ سندھ مسلم لاء کالج کراچی میں پڑھایا بھی تھا) اور چند دیگر لوگوں کے اور کوئی بھی موجود نہیں تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو لاہور ہائی کورٹ میں پہلی پیشی کے موقع پر، انور بٹر ایڈووکیٹ بھی ہمراہ ہیں

انور بٹر نے لاہور ہائی کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت کی درخواست جسٹس خواجہ محمد احمد (کے ایم) صمدانی کی عدالت میں دائر کی جسے جسٹس کے ایم صمدانی نے منظور کر لیا۔ یہی جسٹس کے ایم صمدانی سندھ میں بھی تعینات رہے تھے اور جب سیکرٹری قانون تھے تو انہوں نے ضیاء الحق کے کسی ریمارکس پر ان کو کھری کھری سنائی تھیں۔ وہ بینظیر بھٹو کی حکومت میں مرتضیٰ بھٹو کے بھی وکیل تھے۔

پنجاب کے اس وقت کے انسپکٹر جنرل آف پولیس راؤ رشید نے لکھا ہے کہ بھٹو ان دنوں ملتان کے دورے پر تھے جب نواب محمد احمد قصوری قتل ہوئے۔ انہیں بتایا گیا کہ احمد رضا قصوری نے الزام لگایا ہے کہ ان کے والد کا قتل ذوالفقار علی بھٹو کے ایما پر کیا گیا ہے، تو ذوالفقار علی بھٹو نے راؤ رشید کو حکم دیا کہ 'وہ جس پر بھی کہتے ہیں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے، چاہے میرا نام ہی کیوں نہ لیں'۔

کسے خبر تھی کہ آنے والے دنوں میں بھٹو اپنے ہی حکم سے کٹوائی گئی ایف آئی آر کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے خلاف قتل کا مقدمہ سیشن کورٹ کے بجائے سیدھا لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا۔ یہ کیس اس بینچ کے سامنے لگا جس کے سربراہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق تھے۔ مولوی مشتاق بھٹو کے خلاف انتہائی عناد اور بغض رکھتے تھے اور اپنے جذبات چھپاتے بھی نہیں تھے۔

کہتے ہیں کہ مولوی مشتاق ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ترقی نہ ملنے پر ان سے سخت شاکی تھے۔ دوران مقدمہ ان کا بھٹو کی طرف رویہ انتہائی مخاصمانہ اور ذلت آمیز تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھٹو کے مذہب یا مسلمان ہونے پر بھی سوال اٹھائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ نے بھٹو کو سزائے موت سنائی۔

بھٹو کے خلاف گواہی دو سلطانی گواہوں نے دی جن میں ایک بھٹو کی بنائی گئی فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر مسعود محمود اور دوسرے لانس نائیک غلام حسین تھے۔

جسٹس دراب پٹیل سپریم کورٹ میں بھٹو کی اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ کے رکن تھے اور انہوں نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یعنی بستر مرگ پر میری ایک ساتھی صحافی کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ غلام حسین اتنا ناقابل اعتبار گواہ تھا کہ اس کی گواہی کی بنیاد پر بھٹو کو سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران غلام حسین کو کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سی ایم ایچ) راولپنڈی میں رکھا گیا تھا جہاں ملٹری انٹیلی جنس کے لوگ اس سے ملتے اور اسے کیس کے سلسلے میں پڑھاتے سکھاتے تھے۔

جسٹس دراب پٹیل نے میری ساتھی صحافی کو یہ بھی بتایا تھا کہ مولوی مشتاق کی طرح سپریم کورٹ کا چیف جسٹس انوار الحق بھی بھٹو کے بارے میں سخت متعصب تھا اور ضیاء الحق سے باقاعدہ رابطے میں تھا۔ چیف جسٹس انوار الحق نے ضیاء الحق سے ملاقات بھی کی تھی جس میں ضیاء الحق نے انہیں کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ بھٹو کی اپیل پر فیصلہ 12 ربیع الاول والے دن آئے جب وہ خود اس دن لاہور میں ہوں گے۔ جسٹس دراب پٹیل نے یہ بھی میری ساتھی صحافی کو بتایا تھا کہ چیف جسٹس انوار الحق بینچ پر دباؤ ڈالتا رہتا تھا۔ اس نے جسٹس دراب پٹیل کو بھی دبے لفظوں میں یہ دھمکی دی تھی کہ 'آپ کا تعلق اقلیت سے ہے، لہٰذا ہاتھ ہولا رکھیں'۔

چیف جسٹس انوار الحق کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ بیوروکریسی سے عدلیہ میں آئے تھے اور عدلیہ میں آنے سے قبل ان کا تعلق انکم ٹیکس گروپ سے تھا۔ بینچ کے ایک اور رکن جسٹس صفدر شاہ پر بھی دباؤ ڈالا گیا تھا اور ان کی ڈگری 'جعلی' بتا کر انہیں جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ جسٹس وحید الدین کو بھی غالباً ریٹائرڈ کر دیا گیا تھا اور بھٹو کی اپیل پر بنے اپیلیٹ بینچ میں زیادہ تر اپنی مرضی کے جج بٹھائے گئے تھے۔

حاجی سیف اللہ کیس میں سپریم کورٹ نے اپنی ججمنٹ میں شیکسپیئر کے ڈرامے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ 'سیزر مرچکا ہے، ہم اسے زندہ نہیں کر سکتے'۔ یعنی محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی غیر آئینی تھی مگر ہم جونیجو حکومت کو بحال نہیں کر سکتے۔

منجھے ہوئے اور سینیئر سفارت کار اقبال آخوند نے اپنی یادداشتوں کی کتاب میں ایک باب بھٹو پر لکھا ہے اور انہیں تیسری دنیا کا سیزر قرار دیا ہے۔ بلکہ بھٹو والے اس باب کا نام ہی ' تیسری دنیا کا سیزر ہے'۔ تیسری دنیا کے سیزر کو مار کر اب سپریم کورٹ کہتی ہے کہ اسے فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔

ایک لنکنز ان پلٹ وکیل جس نے سندھ کے ذہین ترین وکیل ڈیئل مل کی فرم جوائن کی تھی، وہ نوجوان وکیل بھٹو جس نے قتل کے مقدمے میں پھنسے ہوئے جیکب آباد کی ایک غریب عورت کے بے گناہ بیٹے کا کیس بنا فیس لیے لڑ کر اسے آزاد کروا دیا تھا، کس نے جانا تھا کہ وہی وکیل ایک دن خود قتل کے مقدمے میں پھانسی پا جائے گا۔

رات کے 2 بجے تم سبھی سو چکے تھے

مگر وہ ابھی جاگتا تھا

کبھی ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر پرزے اڑاتا

کبھی مسکراتا

کبھی آسماں کی طرف دیکھتا

آسمان دو پہاڑوں کی میخوں پر اترا ہوا

اس کی چکی کے روزن سے ہنستا رہا

اور وہ دیر تک شیو کرتا رہا

رات کے 2 بجے

(مسعود منور)